Featuredانٹرٹینمنٹ

خدائے سخن میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی

میر تقی میر ایسے شاعر نہ تھے کہ جو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا احساس نہیں کرسکتا تھا، سو یہ تعلّی بھی میر کو زیب دیتی ہے

خدائے سخن میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی اور آج بھی ان کا شہرہ اور اشعار کا چرچا ہورہا ہے۔
میر نے سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ “آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”
میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔

میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ یہ بڑا پُر آشوب دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی۔

قرآن اور بنیادی اسلامی تعلیمات سیکھنے کے بعد اردو اور فارسی پڑھی۔1732ء میں میرؔ کے والد انتقال کر گئے۔ یہ وقت میرؔ کے لیے سخت آزمایش اور ابتلا کا تھا، عمر دس سال سے کچھ زیادہ تھی اور ابھی تعلیم و تربیت کی ابتدائی منازل ہی طے کی تھیں۔ والد کی دو شادیاں تھیں اور سوتیلے بھائی نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان باتوں کا میر پر گہرا اثر ہوا اور طبیعت میں زود رنجی پیدا ہو گئی۔ تب روزگار کی خاطر بہت دوڑ دھوپ کی، مگر کوئی بات نہ بن سکی۔

یہ بھی پڑ ھیں : پاکستانی خاتون کے ہاتھوں کاڑھا گیا قرآنی نسخہ مدینہ کی لائبریری پہنچ گیا

یہی وہ زمانہ تھا جب شاعر کے طور پر میر کی شہرت کا آغاز ہوا۔ 1742ء میں بیس سال کی عمر میں میرؔ کی شاعری کا چرچا ہونے لگا۔
سخن میں نام ور میر تقی میر نے 1752ء میں ’’نکات الشّعراء‘‘ تحریر کی جس میں اُردو زبان کے شاعروں کے مختصر حالات اور انتخابِ کلام شامل تھا۔ یہ کتاب فارسی میں تحریر کی گئی اور اردو شعرا کے اوّلین تذکروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

میرؔ اپنے زمانے کا سب سے تابندہ نام تھا اور انھیں مختلف امرا و نوابین کے دربار میں عزّت و تکریم کے ساتھ انعام و وظائف ملنے لگے تھے۔ میر تقی میر نے شادی کی اور ان کے بیٹے میر فیض علی اور میر حسن عسکری تھے جو شاعر اور بیٹی شمیم کو بھی شاعرہ لکھا گیا ہے جو صاحبِ دیوان تھیں۔

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اُس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
یہ سن کر سامعین میرؔ سے معافی کے طلب گار ہوئے اور ان کے کلام کو بھی سراہا۔

میر کے فن کی عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی۔ عظیم شعرا اپنے کلام اور نام ور نقّادوں نے اپنے مضامین میں میر کے بارے میں لکھا اور انھیں بڑا شاعر تسلیم کیا ہے۔ اس ضمن میں مرزا رفیع سودا اور غالب کے اشعار بہت مشہور ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close