لاہور: الیکشن کمیشن کی جانب سے سیالکوٹ کے شہر ڈسکہ میں 19 فروری 2021 کو ضمنی انتخاب منعقد کیا گیا تھا یہ انتخاب اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی سید افتخار الحسن کی وفات کے بعد منعقد کیا جا رہا تھا
اس واقعے کے بعد پانچ اپریل 2021 کو الیکشن کمیشن نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے تحت تمام افسران کو 16 اپریل کو حاضر ہونے کا کہا گیا تھا۔
اس انتخاب کے دوران 20 ایسے پولنگ سٹیشن سامنے آئے تھے جہاں انتخاب کے دوران پولیس افسران نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی، بروقت انتخاب نہیں ہوا اور یہ پورا عمل کرپشن کا شکار رہا۔
یہ رپورٹ جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر سعید گل نے تیار کی ہے اور اس رپورٹ کی تکمیل کے لیے ان تمام افسران اور ریٹرننگ افسران سے تفتیش کی گئی ہے جو اس روز ڈیوٹی پر موجود تھے۔
الیکشن کے دوران فائرنگ کے معاملے پر مسلم لیگ (نواز) کے احسن اقبال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ڈسکہ کے مسلم لیگ نواز کے مضبوط علاقوں میں سارا دن فائرنگ کر کے خوف و ہراس کی فضا بنائی گئی جس کا مقصد مسلم لیگ نواز کے ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم کرنے کی کوشش تھی۔
انتخاب شروع ہونے کے تین گھنٹے بعد ہی ڈسکہ میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی اور 20 سے زائد پولنگ سٹیشنز کے باہر ہوائی فائرنگ کی گئی۔
دو ہلاکتوں کی اطلاعات کے بعد حالات مزید خرابی کی طرف بڑھ گئے جس کے نتیجے میں ووٹرز پریشان رہے اور فائرنگ کی وجہ سے ایک علاقے تک محدود رہ گئے۔
اس دوران ریٹرننگ افسر کو شام 5:39 بجے تک نتائج ملنا شروع ہوگئے تھے لیکن 20 پولنگ سٹیشن کی طرف سے پوچھنے پر بھی کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق مذکورہ پولنگ سٹیشز کے افسران کے موبائل فون بند جا رہے تھے اور ان ہی پولنگ سٹیشنز کے 20 پریزائیڈنگ افسران ’لاپتہ‘ بھی ہو چکے تھے۔
یہ بھی پڑ ھیں : الیکشن کمیشن بتائے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کیسے رازداری نہیں رہے گی
اس دوران ان 20 حلقوں سے لوگ نتائج حاصل کرنے ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنا شروع ہوگئے اور اس دوران امن و امان کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔
حیران کُن طور پر جن 20 پولنگ سٹیشنز سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا، ادھر سے انتخابی نتائج تقریباً 20 فروری کی صبح چار بجے موصول ہونا شروع ہو گئے، جبکہ یہی 20 پریزائیڈنگ افسران 20 فروری کی صبح ساڑھے چھ بجے ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنا شروع ہو گئے۔
مختلف افسران جن میں ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز محمد اقبال شامل ہیں، اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس ڈسکہ میں الیکشن عمل میں دھاندلی کروانے کی غرض سے منعقد ہونے والے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ’الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی‘ پر ڈسکہ میں ہونے والے اس ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
اس انتخاب میں اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اُمیدوار سیدہ نوشین افتخار کا مقابلہ پاکستان تحریکِ انصاف کے علی اسجد ملہی سے تھا۔
سیدہ نوشین افتخار کے والد کی وفات کے بعد ہی یہ نشست خالی ہوئی تھی۔
بعد میں علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن کے انتخاب کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا تاہم عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
اس کے بعد 10 اپریل کو ڈسکہ میں ضمنی انتخاب دوبارہ منعقد ہوا تھا جس میں سیدہ نوشین افتخار کامیاب ہوئی تھیں۔