Featuredانٹرٹینمنٹ

غالب گئے ہی کہاں ہیں.. وہ تو ہر ذہن اور زبان پر ہیں

کتنا مشکل ہے غالب پر بات کرنے کے لئے کوئی ایسا شعر منتخب کرنا جو اب تک نہ سنا گیا ہو، نہ کہا گیا ہو، نہ چنا گیا ہو

ایک صدی قبل اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اس شاعر کے کلام آج بھی لوگوں کے ذہن اور ان کی زبان پر اس قدر چڑھے ہوئے ہیں کہ کچھ بھی ان سنا اور ان کہا سا نہیں لگتا۔ پھر رنگ منچ سے لے کر سنیما اور ٹیلی ویژن تک ان کی زندگی کے تانے بانے کو اتنی بار بنا گیا ہے کہ ان کی غیر موجودگی بھی کہیں نہ کہیں ان کے ہونے کی وکالت کرتی نظر آتی ہے۔

غالب پر پہلی فلم بنی تھی مرزا غالب کے ہی نام سے سنہ انیس سو چون میں۔ اس میں بھارت بھوشن نے غالب کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم کی موسیقی دی تھی غلام محمد نے۔ فلم کو لوگوں نے کافی پسند بھی کیا۔

 یہاں تک کہ پاکستان میں بھی انہیں وہی عزت ملی جو ہندوستان میں ملتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑ ھیں : مرزا اسد اللہ غالب کی آج 148ویں برسی منائی جا رہی ہے

سنہ انیس سو اکسٹھ میں پاکستان میں بھی مرزا غالب پر اسی نام سے ایک فلم بنی۔ اس فلم کو ایم ایم بلو مہرا نے بنایا تھا۔ اس فلم میں پاکستانی فلم سپراسٹار سدھیر نے غالب کا رول نبھایا تھا اور نور جہاں ان کی معشوقہ بنی تھیں۔ یہ فلم 24 نومبر 1961 کو ریلیز ہوئی تھی۔ باکس آفس پر اسے اوسط کامیابی بھی ملی تھی۔

گلزار نے بھی 1988 میں مرزا غالب پر ایک سیریل بنائی تھی۔ یہ شو ڈی ڈی نیشنل پرآتا تھا اور کافی پسند بھی کیا گیا۔

نصیر الدین شاہ نے اس میں غالب کا کردار ادا کیا تھا۔ اس شو کے لئے غزلیں جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ نے گائی تھیں۔

ٹی وی شو اور سنیما ہی نہیں، غالب کی زندگی کو نہ جانے کتنی بار رنگ منچ پر سجایا گیا۔ پارسی تھیٹر سے شروع کرتے ہوئے ہندوستانی تھیٹر کے دنوں تک مہدی صاحب کی تحریر کردہ ناٹکوں میں نہ جانے کتنی بار محمد ایوب نے غالب کا رول نبھایا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close