حکومت IPPs سے کیے معاہدوں کا آڈٹ رکوانے کیلیے کوشاں
اسلام آباد: وفاقی حکومت اور آڈیٹر جنرل کے دفتر کے مابین قانونی تنازع چھڑجانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے جو پہلے ہی آڈٹ کو محدود کرنے کے کسی بھی اقدام کو آئین کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے
وزیراعظم عمران خان نے آڈیٹرجنرل آف پاکستان کے دفتر کی طرف سے آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں کے آڈٹ کے اختیار کی وسعت جاننے کے لیے وفاقی کابینہ کے سامنے سمری پیش کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
وفاقی کابینہ سمری کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 100 کے تحت اٹارنی جنرل کے دفتر کو فیڈرل آڈیٹرز کے دائرہ کار پر نظرثانی کے لیے ریفرنس بھیجے گی تاہم اٹارنی جنرل پہلے ہی یہ رائے دے چکے ہیں کہ اے جی پی کا کام اکاؤنٹس کے آڈت تک محدود ہونا چاہیے اور انھیں گورنمنٹ انٹرپرائزز کے پرفارمینس آڈٹ سے دور رہنا چاہیے۔
یہ بھی پڑ ھیں : غیرقانونی بھارتی اقدام کےخلاف آج ’’یوم استحصال‘‘منایاجارہاہے
اے جی پی نے یہ مشورہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق تنازع کی جڑ آڈیٹرجنرل آف پاکستان کا آئی پی پی سے کیے گئے معاہدوں، نیپرا کے مقررکردہ ٹیرف اور آئی پی پی پیز کو کی جارہی ادائیگیوں کا خصوصی آڈٹ کرنے کا فیصلہ ہے۔
حکومت اور 47 آئی پی پیز نے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے اور پھر 2021 ء میں باضابطہ معاہدے طے پائے تھے جن کے متعلق حکومت نے کہا تھا کہ ان سے 10 سے 12 سال کے عرصے میں 836 ارب کی بچت ہوگی اس کے عوض حکومت نے آئی پی پیز کو 450 ارب ادا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس رقم میں سے وفاقی کابینہ 224 ارب روپے کی ادائیگیوں کی منظوری دے چکی ہے۔ اس تمام عرصے میں حکومت نے آئی پی پی پیز کی جانب سے کی گئی بے ضابطگیوں سے چشم پوشی اختیار کی۔