Featuredاسلام آباد

جسٹس فائز اپنے اور اہلخانہ کے اثاثوں کی تفصیلات دینے کے پابند ہیں

اسلام آباد: موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس سجاد علی شاہ ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین کی رائے پر مبنی ہے ، اختلافی فیصلہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے

تفصیلی اختلافی فیصلے میں قرآن پاک کی سورة النساء کا حوالہ دیتے ہوئے قراردیا گیا ہے کہ اللہ کے احکامات کے سامنے ہم کسی قسم کی کوئی پس وپیش نہیں کرسکتے ہیں ، ایک جج بھی دیگر افراد اور سرکاری عہدیداروں کی طرح اپنی غلطی اور کوتاہی کیلئے قابل احتساب ہوتا ہے ، سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت آئی، جس میں جسٹس فائز کیخلاف آنیوالے مواد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی جانب سے وضاحت دینا لازمی ہے۔

فاضل جج صاحبان نے قرار دیاہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے ٹیکس کے معاملات پر آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اطلاق نہ ہونے کی دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں ہے۔

فاضل جج صاحبان نے قرار دیاہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ بھی دیگر سرکاری ملازمین کی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے پابند ہیں، بھارت اور کینیڈا میں بھی ججوں کو تجارت یا کاروباری معاملات میں ملوث ہونے پر انکوائری کے بعد مستعفی ہونا پڑا ہے۔

اختلافی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایک جج اور سرکاری ملازم کے احتساب کے طریقہ کار میں بس اتنا ہی فرق ہے کہ اعلیٰ عدلیہ (ہائی کورٹ ،سپریم کورٹ ) کے ایک جج کے خلاف شکایت پر انکوائری کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے، جب 2013 میں لندن کی یہ جائیدادیں خریدی گئی تھیں ،اس وقت جسٹس فائز عیسیٰ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔

فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ بیگم سیرینا عیسیٰ کے بنک کی جانب سے ایف بی آر کو جو دستاویزات موصول ہوئی ہیں ،ان کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اپنی بیگم کے فارن کرنسی اکائونٹس کے ساتھ تعلق تھا،اس لئے ایف بی آر کی جانب سے ان دستاویزات کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔

عدالت نے قرار دیاہے کہ اکثریتی ججوں نے ایک بے ترتیب صورتحال پیدا کردی ہے ،اور انصاف کی فراہمی کے لئے اس عدالت کے طریقہ کار پر قانونی نزاکتوں کے پردے ڈال دیے گئے ہیں۔

اس ریفرنس کا آغاز ہی قرآن پاک کی سورة النساء کا حوالہ دیکر شروع کیا گیا ہے جو انصاف کے لئے سچائی تلاش کرنے کی ہدایت کرتی ہے ،تاہم ایک غیر مطمئن صورتحال پیدا ہوگئی ہے ،جس سے یہ تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ عدالت نے انصاف کی فراہمی کے عمل کے دوران اپنے ایک شخص کے لئے مختلف معیار اپنایا ہے۔

یہ بھی پڑ ھیں : سندھ کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت مکمل

ایک جج انصاف کی فراہمی کی بناء پر معاشرے میں بلند ترین مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے طبقہ اشرافیہ کا حصہ ہوتا ہے ،اس کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے دوران سچائی کا سامنا نہ کرنا اللہ کے احکامات کے بالکل مخالف ہے جس نے معاشرہ میں امتیازی سلوک سے منع کررکھا ہے۔

عدالت نے نظرثانی کے لئے دائر کی گئی 9مختلف نظر ثانی کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے عدالت کا 19جون 2020 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 29جنوری کو دیا گیا فیصلہ دس میں سے 4 ججز کا ہے،کیونکہ جسٹس یحیی آفریدی نے اضافی نوٹ دیاہے۔

فاضل جج نے قراردیا کہ جسٹس ریٹائرڈمنظور ملک تفصیلی فیصلے پر کیسے دستخط کر سکتے ہیں؟میرے لئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ جسٹس منظور ملک نے فیصلے سے اتفاق کیا ہے حالانکہ وہ کئی ماہ پہلے ریٹائرڈ ہوچکے تھے ،اس لئے قانون کے مطابق وہ تفصیلی وجوہات پر دستخط نہیں کر سکتے تھے،اس لئے جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کے دستخط شدہ فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

فاضل جج نے مزید لکھا ہے کہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے بھی اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ پٹشنر جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل تحقیقات کر سکتی ہے۔

فاضل جج نے قراردیاہے کہ اس مقدمہ میں کوئی اکثریتی رائے موجود نہیں ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل یا کوئی بھی فورم ایف بی آر کی رپورٹ پر تحقیقات کر سکتا ہے، جسٹس قاضی امین نے جسٹس منیب اختر کے اضافی نوٹ سے اتفاق کیاہے ۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close