سمندری راستوں سے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد ہلاک
نیویارک(27 مارچ ۔2021ء) اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران پناہ کی تلاش میں یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن سمندری راستوں سے یورپ کا رخ کرنے والوں کی اموات اور ان کے لاپتہ ہونے کی شرح اب تک خوفناک حد تک بلند ہے.
اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن (IOM) کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترک وطن کے دشوار سفر میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کی لاشوں کو تلاش کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ان کی شناخت ہو سکی ہے رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس غیر منظم انداز میں ترک وطن کرکے یورپ پہنچنے والوں کی تعداد 93ہزارتھی اور ان میں اندازا 92 فیصد سمندر کے ذریعے مغربی افریقہ سے اسپین کے کنیہری جزائر پہنچے تھے.
شینگن کا علاقہ تسلیم کئے جانے والے کنیہری جزائر میں گزشتہ سال پناہ گزینوں کی آمد میں 75 فیصد اضافہ ہوا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے پناہ گزیں پہلے سے ہی ماہی گیری اور زراعت کے شعبے میں کام کررہے تھے، جنہیں کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے معاشی طور پر نقصان پہنچا. سمندری راستے دشوار گزار اور جان لیوا ہیں اقوام متحدہ کی جانب سے لاپتہ مہاجرین کے معاملے پر تحقیق کے ایک پراجیکٹ نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ سال سمندری سفر کے دوران کم از کم 2ہزار3سو ہلاکتیں ہوئیں یا لوگ لاپتہ ہوئے تاہم آرگنائزیشن نے تسلیم کیا ہے کہ اس کا ڈیٹا نامکمل ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی کشتیوں کو حادثہ پیش آیا اور وہ ڈوب گئیںاور پھر نہ کشتیاں ملیں نہ ہی ان کے مسافرجو کہ خاص طور پر قابل تشویش ہے.
انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق بحر الکاہل اور بحیرہ روم میں 2020 کے دوران کم از کم 19 کشتیوں کو حادثات پیش آئے جن کا پتہ بعد میں چلا ڈیٹا کے مطابق ان حادثات میں 571 افراد ہلاک ہوئے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے حادثات کی تصدیق مشکل ہوتی ہے کیونکہ ان کا علم ہی نہیں ہوتا رپورٹ کے مطابق یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ سمندری راستے سے یورپ آنے والے راستوں میں اموات کی صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو ڈیٹا میں نظر آتی ہیں رپورٹ کے مطابق حال ہی میں شمار میں نہ آنے والی اموات کا علم اس وقت ہوا سمندری سفر میں بچ جانے والے دو افراد کا انٹرویو کیا جو گزشتہ نومبر کنیہری جزائر پہنچے تھے ان کے مطابق ان کی کشتی پر سوار 20 سے زیادہ افراد دو ہفتے کے دشوار گزار سفر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے