عدالت عظمیٰ کے معزز جج کو سوموٹو لے کر انکوائری کرنی چاہئے کہ کورونا ویکسین کی آڑ میں یہ سرکاری اسکیم کس نے کیا ہے۔
کورونا ویکسین : دنیا بھر میں ایک ایسا ایشو بن چکا ہے کہ ہر ملک اپنے عوام کو موذی وبا سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کرنے یا درآمد کرنے میں جتاہوا ہے۔
پاکستان میں بھی کورونا ویکسین لگوانے کی اجازت مل چکی ہے اور اس سلسلے میں حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں سطح پر ویکسین لگائی جا رہی ہے۔حکومت تو عوام کو مفت میں ویکسین لگا رہی ہے جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے کورونا ویکسین کی قیمت آٹھ ہزار روپے حکومت کی طرف سے متعین کی گئی ہے۔
جبکہ ویکسین کی قیمت سے متعلق مختلف باتیں سننے کو مل رہی ہیں اور ماہرین کی نظر میں کورونا ویکسین کی قیمت بہت زیادہ متعین کی گئی ہے۔کورونا ویکسین کی لاگت سے متعلق یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی قیمت پانچ سے چھے سو روپے یا زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے ہونی چاہیے تھی لیکن حکومت کی طرف سے بہت زیادہ قیمت کا تعین کیا گیا ہے جو کہ 23کروڑ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں سینئر صحافی طاہر ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج کو ا س بات پر سوموٹو لینا چاہیے کہ کورونا ویکسین کی قیمت اتنی زیادہ متعین کیوں کی گئی ہے اور انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ جب یہ ویکسین ملکی سطح پر کم قیمت میں تیار ہو سکتی تھی تو پھر کس کے کہنے پر ویکسین یہاں تیار نہیں کی گئی اور اسے باہر ممالک سے پرائیویٹ لوگوں کے ذریعے امپورٹ کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔
عارف حمید بھٹی نے بھی اس بات میں لقمہ دیتے ہوئیے کہا کہ حکومت کو ا س بات پر کمیٹی قائم کرنی چاہیے اور 23کروڑ عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالنے والے شخص کا نام سامنے لانا چاہیے کہ کس شخصیت نے اس پراجیکٹ میں اربوں روپے کی دہاڑی لگائی ہے اور غریب عوام کی جیب پر بوجھ ڈالا گیا ہے
۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے اورعوام کے ساتھ یہ زیادتی ہے کہ چند سو روپے کی ویکسین کو ہزاروں روپے میں بیچا جائے اور منافع کمانے والی کاروباری کمپنیوں کو سہولت مہیا کرنے میں حکومت بھی اپنا حصہ ڈالے اس بات پر تحقیق ہونی چاہیے کہ کورونا ویکسین کو امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟