بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں نے پراکسی وار شروع کر رکھی ہے، بلاول بھٹو زرداری
کوئٹہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی میں پیشی اور تھوڑی سے پوچھ گچھ کے بعد شریف برادران اپنا انجام دیکھ کر بوکھلا گئے ہیں۔ ان کی لوٹ مار، عوام دشمنی اور ظلم کی لمبی داستانیں ہیں۔ شریف برادران جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ سے بچ بھی گئے تو عوام ان کا کڑا احتساب کرے گی۔ بلوچستان میں غیر ملکی طاقتوں نے ایک قسم کی پراکسی وار شروع کر رکھی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو ورغلایا جا رہا ہے، حکومت نے بلوچستان کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا۔ غربت، بیروزگاری، تعلیم اور صحت کی سہولیات نہیں ہوں گی تو دہشتگردی کے خلاف جنگ کیسے جیتی جاسکتی ہے۔ بلوچستان کے ساحل اور وسائل سے ترقی کہیں اور ہو رہی ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر علی مدد جتک سمیت دیگر پارٹی عہدیداران بھی موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میرے لئے خوشی کا مقام ہے کہ آج بہادر لوگوں کی سرزمین بلوچستان میں اپنے بھائیوں سے مخاطب ہوں۔ بلوچستان رقبے کے حوالے سے سب سے بڑا صوبہ اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ مگر ساحل و وسائل رکھنے والے صوبے کے عوام آج بھی باقی پاکستان سے زیادہ غریب ہیں۔ یہاں نہ سڑکیں ہیں، نہ تعلیم اور نہ ہی علاج کی سہولیات۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی کیلئے بھی لوگ تڑپتے ہیں۔ یہ بلوچستان کے لوگوں کی قسمت میں نہیں لکھا گیا تھا کہ وہ ہمیشہ غریب رہیں گے۔ ان کی قسمت میں یہ نہیں کہ وہ ہر بنیادی سہولت سے محروم رہے۔ یہاں کے لوگوں کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں، جو باقی پاکستانیوں کے حقوق ہیں۔ یہاں کے عوام کو بھی ترقی کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ساحل و وسائل ان کے اور ترقی کہیں اور ہو رہی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں بھی یہی سب کچھ ہوتا رہا اور موجودہ حکومت میں بھی یہی ہوتا آرہا ہے۔ نون لیگ اور اسلام آباد میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانے والوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ان کی پالیسی عوام کی خوشحالی کی نہیں ہوتی۔ یہ مٹھی بھر سرداروں کو خوش کرکے اپنے ساتھ ملاکر حکومت کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے، نوجوان باغی ہو جاتے ہیں۔ سالوں سے یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور اب بھی یہی کچھ کیا جا رہا ہے۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد آصف علی زرداری نے بلوچ عوام سے معافی مانگی تھی، وہ معافی کیوں مانگی گئی تھی، پیپلز پارٹی نے تو کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ جو کچھ بھی کیا وہ آمر پرویز مشرف نے کیا۔ اس وقت جو ظلم ہوا وہ مشرف کے دور میں ہوا۔ جس نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پوری پاکستانی قوم پر ظلم کیا۔ وہ ایک آمر تھا، اس دور میں نقصان تو ہمارا بھی ہوا تھا۔ شہید بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا۔ مگر جب ہم نے وفاق میں حکومت بنائی ہم نے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور عوام کو قومی دھارے میں لانے کیلئے معافی مانگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم سے جو کچھ ہوسکا ہم نے کیا۔ آغاز حقوق بلوچستان شروع کیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے یہاں کے عوام کو وسائل پر حق دیا، این ایف سی ایوارڈ دے کر مالی وسائل میں زیادہ حصہ دیا۔ پہلے صرف آبادی کی بنیاد پر ایف این ایف سی ایوارڈ یا جاتا تھا۔ مگر ہم نے آبادی کے ساتھ ساتھ باقی بنیادوں پر بھی وسائل کی تقسیم کا طریقہ کار بنایا۔ نوجوانوں کو روزگار دیا۔ وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کو کوٹہ سے بڑھ کر ملازمتیں دیں۔ اسی طرح اسکالر شپس دیں، تاکہ یہاں کے نوجوان بہتر تعلیم حاصل کریں۔ گوادر پورٹ سنگاپور سے لیکر سی پیک کی بنیاد رکھی۔ سی پیک زرداری کا وژن تھا۔
اصل میں سی پیک میں سب سے زیادہ حصہ خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کو ملنا تھا، کیونکہ دونوں صوبے دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار رہے۔ خاص طور پر بلوچستان میں غیر ملکی طاقتوں نے ایک قسم کی پراکسی وار شروع کر رکھی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو ورغلایا جا رہا ہے۔ ہندوستان کے براہ راست مداخلت کے ثبوت ملے ہیں۔ ان کے جاسوس پکڑے گئے ہیں۔ فرقہ وارانہ دہشتگردی پھیلائی گئی، شیعہ ہزارہ برادری، وکلاء، پولیس اور سکیورٹی فورسز اس دہشتگردی کا شکار ہوئے ہیں۔ آج پورے پاکستان میں زیادہ غربت بلوچستان میں ہے۔ سکیورٹی فورسز نہیں لڑتی بلکہ یہ جنگ جیتنے کیلئے پوری ملک کے قوم کو متحد کرنا ہوگا۔ ملک کے عوام ہی اس مائنڈ سیٹ کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں۔ فوج اور فورسز اپنا کام کر رہی ہیں۔ مگر یہ حکمران اپنا کام کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ کہاں ہے نیشنل ایکشن پلان؟ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اسے دفن کر دیا گیا ہے۔ میاں صاحب روز ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا سیلاب آیا ہے، عوام خوشحال ہو رہے ہیں۔ لیکن یہاں بلوچستان میں تو غربت بھری ہے۔ لوگوں میں بھوک و افلاس ہے، نوجوانوں میں بے روزگاری ہے۔ وفاق دشمن پالیسی کی وجہ سے بلوچستان کی محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری نہیں بلکہ بیرونی قرضہ بڑھا ہے۔ مگر ان حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔ یہ صرف جے آئی ٹی کی تفتیش سے بچنے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت بچانے میں مصروف ہیں۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میاں صاحبان پھر اپنی پرانی روش پر آئے ہیں۔ یہ صرف ملک کے آئینی ادارے کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جھوٹ اور الزامات کی سیاست کر رہے ہیں۔ عوام کو گمراہ اور بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد باہر نکل کر جو یہ باتیں کرتے ہیں، اس سے لگتا یہی ہے کہ آج یہ بوکھلا گئے ہیں۔ ان کو اپنا انجام نظر آرہا ہے۔ گارڈ فادر کے بعد چھوٹے ڈان کہتے ہیں کہ 1972ء میں بھٹو نے لوہا بنانے کی فیکٹری چھین لی۔ بعد میں شہید بی بی نے دو مرتبہ ان کا احتساب کیا اور پھر مشرف نے ان کا احتساب کیا۔ یہ سب کچھ وہ میڈیا کے سامنے پوری قوم کو سنا رہے ہیں، جھوٹ پر جھوٹ بھول رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ بلوچستان والے الیکشن کی تیاری کریں، آپس میں متحد رہیں اور اپنے سارے اختلافات ختم کریں۔ عید کے بعد ڈویژن کی سطح پر میں خود دورہ کرونگا۔ ان شاء اللہ جیت آپ کی، عوام کی اور غریبوں کی جیت ہوگی۔