حکومت ملکی ترقی کیلئے کوشاں، عوام کی خدمت ہمارا مشن، مخالفین 2018ءتک صبر کریں بلکہ بعد میں بھی صبر ہی کریں: وزیراعظم
کوئٹہ : وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ کے عوام میں 76000 صحت کارڈز تقسیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام پاکستانی کے حالات سے اچھی طرح وقف ہیں، غریب عوام کو غربت سے نکال کر خوشحال کرنا ہی حکومت کا مشن ہے، حکومت کی پالیسیوں سے 2018ءمیں لوڈشیڈنگ ختم ہو گی اورپاکستان مزید ترقی کرے گا۔دھرنے، شور شرابہ، افراتفری سے ملک ترقی نہیں کرتے، میرے دل میں ایک خیال آیا ہے جو مخالفین تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ صبر کرو بلکہ 2018ءکے بعد بھی صبر ہی کرو۔
کوئٹہ میں ہیلتھ کارڈز کی تقسیم کیلئے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج عوامی خدمت کے سفر کا اہم سنگ میل عبور کر رہے ہیں ۔ اکتیس دسمبر 2015 کو اسلام آباد سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا جو مظفر آباد، آزاد جموں وکشمیر سے ہوتا ہوا آج بلوچستان کے شہر کوئٹہ پہنچ چکا ہے ۔ یہ عوام کو صحت مند بنانے اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کو پاکستان کے عوام کی دہلیز تک پہنچانے کا سفر ہے۔ یہ سفر انشاءاللہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام اور قوم کے ایک ایک شہری تک یہ سہولت نہیں پہنچ جاتی۔اس صحت پروگرام کا بنیادی مقصد کم آمدنی ومالے افراد کو صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی اور ان کو مزید غربت ے اندھیروں سے بچانا ہے ۔ میں ایک عام پاکستانی کے حالات سے اچھی طرح سے واقف ہوں۔ علاج ان کی دسترس سے باہر ہوتا چلا جا رہا ہے اور اگر غریب آدمی کے گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو جمع پونجی، گھریلو اشیاءاور زمین و جائیداد تک بیچنا پڑتی ہے۔ اس پروگرام کے تحت غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزارنے والے گھرانوں کو ہیلتھ انشورنس کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ خطرناک اور جان لیوا امراض کا علاج بغیر رقم کے کرا سکیں۔ کسی کو علاج کیلئے گھر کا سامان نہیں بیچنا پڑے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس پروگرام پر پورے ملک میں مرحلہ وار عملدرآمد کیا جا رہا ہے آج ضلع کوئٹہ کے 76000 خاندانوں کو ہیلتھ کارڈز جاری کئے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام میں ہماری ترجیح وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ محروم ہیں۔ اس لئے میں نے آزاد کشمیر کے بعد بلوچستان کا انتخاب کیا ہے۔ بلوچستان کی دھرتی مجھے بہت عزیز ہے، اسی لئے ہیلتھ پروگرام کیلئے میں نے پاکستان کے صوبوں میں سب سے پہلے بلوچستان سے اس کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔ جن 76000 خاندانوں کا ذکر کیا ہے ان کا ڈیٹا پی آئی ایس پی اور نادرا سے حاصل کیا گیا ہے جن کو ہیلتھ کارڈز جاری کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کا تعاون اور کوششیں قابل تعریف ہیں۔ وفاقی حکومت عوامی فلاح و بہبود کے ہر منصوبے میں صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کرے گی۔
یہ بات انقلاب سے کم نہیں کہ وہ عوام جو پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرانے کی طاقت نہیں رکھتے انہیں اب ان ہسپتالوں سے مفت علاج کی سہولت میسر ہو گی۔ہم نے وہ کلچر تبدیل کرنا ہے جس میں آسانیوں پر صرف بڑے لوگوں کا قبضہ ہے یا پیسے والوں کا قبضہ ہے۔ ہم نے ان آسانیوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچانا ہے، سہولت جہاں ہو گی انشاءاللہ عوام تک پہنچے گی۔ یہ احسان نہیں بلکہ عوام کا بنیادی حق ہے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق کو افراد تک پہنچائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس ملک کے عوام کیلئے اس سے بھی کہیں زیادہ کرنا چاہتا ہوں، صحت کے ساتھ عوام کو تعلیم اور روزگار کی بھی ضرورت ہے۔ روزگار کیلئے لازم ہے کہ ملک میں معاشی سرگرمیاں ہوں، سرمایہ داری ہو، صنعتیں قائم ہوں، زراعت ترقی کرے، مستحکم انفراسٹرکچر ہو، بجلی اور گیس کی فراوانی ہو اور یہ کام صرف اس ملک میں ہو سکتے ہیں جہاں امن اور سیاسی استحکام ہو لیکن جس ملک میں احتجاج، دھرنے اور ہر وقت افراتفری کا سماں ہوں ،وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی اور جب سر مایہ نہیں آتا تو روزگار کا دروازہ بھی نہیں کھلتا، لوگوں کے پاس ہنر ہوتا ہے لیکن ان کا طلب گار نہیں ہوتا، نوجوانوں کے پاس ڈگریاں ہوتی ہیں لیکن ان کا قدردان کوئی نہیں ہوتا، ہمیں نوجوانوں کی بے قدری کو روکنا ہے، ہم نے وہ کلچر لانا ہے جس میں ہنرمند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مانگ ہو اور ان کی قدر ہو تاکہ وہ اپنے گھر والوں کی امیدوں پر پورا اتر سکیں اور خاندان کا اثاثہ بن سکیں اور اس کیساتھ ساتھ ملک و قوم کی بھی خدمت کر سکیں۔ ہم نے سرمائے کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ کرپشن کی لعنت سے پاک کرنا ہے، بجلی اور گیس کی کمی پوری کرنی ہے تاکہ کوئی مافیا عوام کے مفاد سے نہ کھیلے۔ ہم نے پہلے دن سے ہی اسی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی اور اللہ کا شکر ہے کہ توانائی منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔
ملک میں بجلی نہ ہونے کے باعث احتجاج ہوتے تھے، کہیں 12 گھنٹے، کہیں 18 تو کہیں 20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ تھی لیکن ان تین سالوں میں کافی فرق پڑا ہے اور ہم اب لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں جبکہ گیس کی قلت بھی ختم ہو جائے گی۔ اس حکومت نے جو توانائی کے منصوبے شروع کئے ہیں انہیں آنے والی حکومتوں پر نہیں چھوڑ کر جائیں گےبلکہ 2018ءلوڈشیڈنگ کے خاتمے کا سال ہو گا۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو شفاف سیاسی کلچر دینا ہے، ہم نے پہلے اپنے عمل سے یہ مثال قائم کی اور اس حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ تین سال گزر چکے ہیں، ان سالوں میں وزیراعظم ہو یا کوئی مرکزی وزیر کسی کے خلاف کوئی بات سامنے نہیں آئی، الزام کا معاملہ دوسرا ہے کیونکہ کسی کی زبان بند نہیں کی جا سکتی، کچھ لوگوں نے کرپشن کے نام پر بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تو ہم نے ان کے مطالبے پر کمیشن بنا دیا اور اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ نواب ثناءاللہ زہری نے کہا ہے کہ2018 ءتک صبر کرو میں کہوں گا کہ 2018 ءتک بلکہ اس کے بعد بھی صبر کرو ۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان چند سال پہلے کرپشن میں سرفہرست ہوا کرتا تھا لیکن آج شفافیت کے حوالے سے اپنی پہچان بنا رہا ہے۔ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے جو ایک ایسلا منصوبہ ہے جو پاکستان کے ساتھ خطے کے عوام کی بھی زندگی بدل دے گا۔ یہ سیاسی انقلاب بھی ہے اور اس منصوبے کا پاکستان میں سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان، خیبرپختونخواہ، فاٹا اور گلگت بلتستان کے عوام کو ہو گا۔ یہ منصوبہ بلوچستان میں معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا، بلوچستان ملک کے دیگر حصوں کے قریب آئے گا بلکہ ترقی اور فلاح کے دروازے کھیلیں گے اور یہ انٹرنیشنل سٹی بنے گا۔ قطر سے سستی ترین ایل این جی کا منصوبہ بھی طے پا چکا ہے اور گیس کی فراہمی شروع ہو چکی ہے، بلوچستان میں اربوں روپے کی خطیر رقم سے سڑکوں کا جال پھیلایا جا رہا ہے جن کے ذریعے گوادر بلوچستان کیساتھ نہیں بلکہ پورے ملک کے ساتھ مل رہا ہے اور اگر گوادر ملے گا تو بلوچستان ملک کے دوسرے حصوں کیساتھ ملے گا۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ موٹروے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے یہ وہ کام ہیں جو اس ملک میں بہت پہلے ہو جانے چاہئے تھے لیکن کسی نے توجہ نہ دی اور اگر ہمارے پاس روڈ نیٹ ورک ہوتا تو آج ہم اس سے کہیں آگے کا سوچتے اور ایک دوسرے سے اتنے دور بھی نہ ہوتے لیکن افسوس کہ ہم نے 1990ءکی دہائی میں جو ترقی کا خواب دیکھا اسے کسی نے آگے نہیں بڑھایا اب دوبارہ اس کا آغاز ہو چکا ہے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر چڑھ چکا ہے۔کراچی کی روشنیاں بحال ہو رہی ہیں اور بدامنی کا خاتمہ ہو رہا ہے، اس آپریشن کو کسی بھی سیاسی مصلحت کا شکار نہیں ہونے دیا اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بھی جنگ لڑی جا رہی ہے اور مسلح افواج کے ساتھ پوری قوم یہ جنگ لڑ رہی ہے۔ حکومت ان سب کے ساتھ سماجی شعبوں پر بھی توجہ دے رہی ہے تاکہ ایک ایسی فلاحی ریاست بنائیں جہاں کسان پرعزم اور نوجوان بااعتماد ہوں، امن و آتشی اور محبت کے پھول کھلیں، امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے، اسی پاکستان کی تعمیر کی جانب ایک اور سنگ میل عبور کیا جا رہا ہے اورصحت کے اس منصوبے کے ذریے ہر اس شخص تک پہنچیں گے جسے محروم رکھا گیا ہے۔ ہمارا مشن عوام کو ہیلتھ کارڈ دینے تک محدود نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ عوام سے جن سہولیات کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ان تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچ سکیں اور اس لئے اس پروگرام کی خود نگرانی کر رہا ہوں اور اس پروگرام کو مرحلہ وار شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس میں سامنے آنے والی مشکلات کو پرکھا جائے اور حائل تمام رکاوٹوں کا جائزہ لے کر اسے دور کیا جائے۔ یہ پروگرام محض ایک منصوبہ نہیں بلکہ یہ غریب عوام کی خدمت کا وہ خاص عمل ہے جس پر ہماری دنیا اور آخرت کا بھی انحصار ہے، ہم تو اسے اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھا رے ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ غریب عوام کی زندگی سے بیماریوں، دکھوں اور تکلیفوں سے دور کرتے ہوئے غربت سے نکال کر خوشحال کر ایسا کام ہے جو اس دنیا میں بھی خوشی اور اطمینان کا باعث بنے گا بلکہ اس دنیا میں بھی اللہ کے حضور سرخرو ہوں گے۔