احتساب کے نام پر انتخابات کا التواء قابل قبول نہیں، لیاقت بلوچ
کوئٹہ: جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ٹریک نہیں ہونا چاہیئے۔ نہ ہی ملک اور صوبے کی سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی اقدام کا بدنما داغ اپنے ذمہ لینا چاہیئے۔ پانامہ میں شامل تمام آف شور کمپنی مالکان کا احتساب ہونا چاہیئے، تاہم احتساب کے نام پر انتخابات کا التواء نہیں ہونا چاہیئے، دہشت گردی اور اس کے ردعمل کے واقعات میں اضافے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر حکومت، فوج اور دیگر اداروں کو نظرثانی کرکے موجود خامیوں کو دور کرنا ہوگا، زینب کے قاتل کی گرفتاری کی خبریں مل رہی ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ مردان میں بچی کے سفاک قاتل کو بھی فوری گرفتار کیا جائے، پنجاب یونیورسٹی کا واقعہ افسوسناک ہے، حکمران طبقہ امریکی غلامی کا طوق پھر اپنے گلے میں ڈالنے کی بجائے اس سے فوری طور پر باہر آئیں، کیونکہ قوم یہی چاہتی ہیں، ایم ایم اے کا اتحاد دینی طبقات کیلئے ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی و دیگر کے ہمراہ الفلاح ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کوئٹہ آنے کے بعد انہوں نے اسلامی جمعیت طلباء عربیہ کے کنونشن میں شرکت کی۔ بعدازاں انتخابی امیدواروں کے اجلاس اور متحدہ مجلس عمل کے ممبرز جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مشاورتی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق 2018ء انتخابات کا سال ہے اور جماعت اسلامی اس سلسلے میں واضح موقف رکھتی ہے کہ آئین کے مطابق جمہوری انتخابی عمل کو مکمل ہونا چاہیئے۔ ہمارا پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ کسی صورت غیر آئینی اقدام کا حصہ نہ بنیں۔ جمہوری قوتوں کیلئے فائدہ مند یہی ہے کہ ملک میں آئین کے تحت سیاسی و جمہوری عمل کو جاری رکھیں۔
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں اسمبلی کے ممبران نے اپنی مرضی کے تحت نہ صرف حکومت تبدیل کی بلکہ نئی حکومت بھی تشکیل دی، تاہم اس عمل سے یہ واضح ہوا کہ قومی سیاسی جماعتوں کے قائدین میں اپنے ہی جماعت کو چلانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کا ذوق موجود نہیں۔ اسی لئے تو پارٹیوں کے اندر سے بلوچستان حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی۔ بلوچستان کے منتخب نمائندے غیر آئینی اقدام کا بدنما داغ اپنے ذمے لیں۔ قصور، مردان، سرگودھا اور کراچی کے افسوسناک واقعات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں ماورائے آئین و قانون اقدامات واضح کرتے ہیں کہ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت انٹیلی جنس کا نظام زوال پذیری کی جانب گامزن ہے۔ اسی لئے تو عوام کا جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ قومی ایکشن پلان اور آپریشن ردالفساد پر اگرچہ پوری قوم متحد اور یکجا تھی۔ ماورائے قانون اقدامات کے باعث قومی ایکشن پلان کے مقاصد ادھورے رہ گئے ہیں۔ کرپشن نے قومی معیشت کو کینسر زدہ کر دیا ہے۔ پانامہ کے بعد سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خاندان اور جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے۔ جماعت اسلامی کی پیٹشن کے تحت عدالت عظمٰی پانامہ میں شامل 324 آف شور کمپنی مالکان کے خلاف کارروائی کیلئے کردار ادا کرے کیونکہ نیب کے حوالے سے عدالت عظمٰی خود بھی بے اعتمادی کا اظہار کرچکی ہے۔ پانامہ میں شامل تمام آف شور کمپنی مالکان کے خلاف کارروائی ہوگی تو ایک دو خاندانوں کے احتساب کا تاثر ازخود ختم ہوگا۔