بلوچستان اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی، سرفراز بگٹی پشونخوا میپ کے ارکان سے لڑ پڑے
بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی صدارت میں ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں وقفہ سوالات کو نمٹا دیا گیا۔ اجلاس کے دوران میر چاکر خان رند یونیورسٹی سبی کا مسودہ قانون پیش کیا گیا۔ اس مسودہ سے متعلق رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے کہا کہ قانون کے مطابق پہلے قرارداد ہونی چاہیئے۔ وزیراعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی کہا کہ ایوان میں پہلے قانونی کارروائی ہونی چاہیئے، تاہم اسپیکر نے ایوان سے رائے اور ووٹنگ کے ذریعے پہلے قانون سازی کی اور بعد میں قراردادیں پیش کی۔ ایوان میں صوبائی وزیر تعلیم طاہر محمود نے ایوان میں تحریک پیش کی، جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اپوزیشن رکن سید لیاقت آغا نے اعتراض اٹھایا کہ زبردستی نہ کیا جائے۔ وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ہر معاملے میں مداخلت نہ کریں، ہمیں معلوم ہے کہ انہیں کہاں سے احکامات ملتے ہیں۔ اسپیکر راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ اپوزیشن حوصلہ رکھیں، جو ابھی تک ایوان میں نہیں آیا، اس پر بات نہ کریں۔ تاہم اس دوران اپوزیشن اور خاص کر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے شدید ہنگامہ آرائی کی۔ اسپیکر نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین کو منانے کی بہت کوشش کی، تاہم وہ ناکام رہیں اور اراکین مسلسل بولتے رہے۔ اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ ایوان میں تین ارکان ماحول خراب کرتے ہیں اور شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سید لیاقت آغا اور عبداللہ جان بابت کا مائیک بند کرا دیا۔
اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ سنجیدگی سے بات کرنی ہے تو کریں، ایوان کو سبزی منڈی نہ بنایا جائے، اپوزیشن لیڈر سے بات ہوگی، کراس بات کوئی نہیں کرے گا۔ اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی میر خالد خان لانگو نے کہا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین کو چاکر خان رند یونیورسٹی کے بل سے متعلق تکلیف ہے، اس لئے وہ شور شرابا کر رہے ہیں۔ اس بات پر عبداللہ جان بابت نے شدید ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کہا کہ مارشل لاء کا دور نہیں ہے، یہاں صرف بلوچوں کی حکومت نہیں۔ لورالائی کا نام بھی تبدیل کرکے پڑنگ آباد رکھا جائے۔ عبداللہ جان بابت مسلسل بولتے رہے اور ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی کی۔ اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ وزیر داخلہ مذاق سے ایوان چلاتے رہے ہیں، لیکن یہاں مذاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میر خالد کو اگر چاکر خان نام سے پیار ہے، تو قلات میں جہاں کہیں رکھے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ میں افغان ہوں اور رہوں گا، کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیئے۔ ہم پر فیصلے زبردستی مسلط نہ کئے جائے۔ افغانستان میرا پہلا وطن تھا اور اب پاکستان میرا وطن ہے۔ اپنی سرزمین کی بات کریں گے۔ یاسمین لہڑی نے اس موقع پر کہا کہ چیخ چلا کے بات نہیں ہونی چاہیئے، خاتون کی بات کو برداشت کرنا چاہیئے۔ اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اسپیکر آپ سے شکوہ و شکایات ہیں، آپ کا غصہ اپنی جگہ لیکن آئین و قانون کو بھی دیکھا جائے۔
بعدازاں نصراللہ خان زیرے نے اسمبلی فلور پر بحث شروع کر دی اور صوبائی وزیر داخلہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے نصراللہ زیرے کے گریبان کو پکڑنے کی کوشش کی، تاہم ارکان اسمبلی نے بچ بچاؤ کرایا۔ اس موقع پر اسپیکر نے کہا کہ یہ وقت بتائے گا، کس نے کیا سودا کیا، اس وقت میں اسمبلی اجلاس کے دوران کچھ نہیں کہوں گی، خواتین کو گالیاں دی گئی ہیں۔ اسمبلی کے باہر آپ سے بات ہوگی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے ایوان کو مچھلی بازار بنایا ہے۔ خواتین کیساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ افسوسناک ہے۔ اجلاس کے دوران کئی بار اسپیکر نے اپوزیشن ارکان کا مائیک بند کرانے کا حکم دیا۔ اسپیکر کے حکم پر اپوزیشن کے تمام مائیک بند کرا دیئے گئے، مگر اس کے باوجود اپوزیشن لیڈر رحیم زیارتوال، عبداللہ جان بابت، لیاقت آغا اور نصر اللہ زیرے مسلسل بولتے رہے۔ بعد میں اسپیکر کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے گئے، اسپیکر نے اس کو کارروائی سے حذف کرنے کا حکم دیا۔ اسپیکر نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن عبیداللہ جان بابت کو غیر مناسب نعرے لگانے پر تنبہہ کی کہ وہ انہیں ایوان سے نکال دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں جس سیٹ پر بیٹھی ہو، اس کے احترام میں خاموش ہوں، مجھے مجبور نہ کیا جائے۔ بعدازاں اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا۔