بلوچستان کبھی پاکستان کا حصہ نہیں تھا، جرمنی کی سڑکوں پر نیا شوشہ
اسلام آباد : کستان سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کا ایک گروپ مختلف جرمن شہروں میں مارچ کرتے ہوئے پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ’تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل کرنے‘ کے واقعات پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے میں مصروف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر پاکستانی میڈیا بھی خاموش ہے اور بین الاقوامی میڈیا بھی بلوچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
بلوچ سماجی کارکنوں کا ’فری بلوچستان مارچ‘ نامی یہ لانگ مارچ 16 جولائی کو مغربی جرمن شہر ڈوسلڈورف سے شروع ہوا جب کہ یہ پیدل مارچ مختلف شہروں میں مظاہرے کرتا ہوا، رفتہ رفتہ برلن پہنچے گا۔ اس دوران اس مارچ کے شرکاء پمفلٹ تقسیم کرتے پھر رہے ہیں، جن میں بلوچستان کا مسئلہ، اس کا کا حل اور وہاں کی موجودہ صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس مارچ میں شریک نوجوان بلوچ کارکن نوبت مری کا کہنا ہے، ’’بلوچستان کبھی پاکستان کا حصہ نہیں تھا۔ ہمارے علاقے پر سب سے پہلے برطانیہ نے قبضہ کیا اور اسے تین حصوں میں توڑ دیا۔ تقسیم ہند کے بعد بھی بلوچستان کا مشرقی حصہ ایک آزاد ریاست تھا، جس پر پاکستان نے فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کر لیا۔ان کا مزید کہنا ہے، ’’ہماری تحریک مکمل طور پر پرامن ہے۔ ہم یورپی شہریوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ ہمیں اپنا بنیادی حق چاہیے۔ ہمیں آزادی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا پر بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازعہ علاقے کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر تو بات ہوتی ہے، تاہم بلوچستان کی بابت مکمل خاموشی ہے