مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کی درخواست
بلوچستان پولیس نے اس خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت سے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دینے کی درخواست بھی کی ہے
یہ دھماکہ پیر کی صبح شہر کے سول ہسپتال کے شعبۂ حادثات کے باہر ہوا تھابلوچستان بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار عطااللہ لانگو نے بتایا ہے کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے وکلا کی تعداد 40 سے زائد ہے۔
سول ہسپتال کے حکام کے مطابق دھماکے میں 110 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے جن میں سے 28 شدید زخمیوں کو خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی منتقل کیا گیا ہے۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی ان کے آبائی علاقوں میں تدفین کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور اس موقع پر صوبے بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے۔
سوگ کے موقع پر تمام سرکاری و نجی عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے جبکہ کوئٹہ شہر کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔
دھماکے کے خلاف انجمن تاجران کی کال پر کوئٹہ بھر کے کاروباری مراکز میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے اور شہر میں ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اس واقعے پر سات روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
اس موقع پر کوئٹہ سمیت ملک بھر میں وکلا نے منگل کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے جبکہ ملک کے مختلف شہروں میں وکلا احتجاجی ریلیاں بھی نکال رہے ہیں۔
کوئٹہ کے ڈی آئی جی آپریشن چوہدری منظور سرور نے منگل کوبتایا کہ دھماکے کے خودکش ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے اور خودکش حملہ آور کی باقیات تجزیے اور شناخت کے لیے متعلقہ اداروں کے سپرد کر دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی انوسٹیگیشن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے تاہم صوبائی حکومت کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے لیے خط بھی لکھ دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے پیر کو میڈیا سے رابطہ کر کے کوئٹہ میں وکیل رہنما کی ہلاکت اور بعد میں سول ہسپتال میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ جس وقت دھماکہ ہوا تو ہسپتال میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی میت لائی گئی تھی جنھیں پیر کی صبح ہی کوئٹہ کے علاقے منوں جان روڈ پر نامعلوم افراد نے گھر سے عدالت جاتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
دھماکے کے بعد ملک کی اعلیٰ شخصیات کے کوئٹہ کے دوروں کا سلسلہ جاری ہے اور منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ہلاک شدگان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔
اس سے قبل پیر کی شام وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ میں زخمیوں کی عیادت کی تھی۔
وزیراعظم نواز شریف نے گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دشمن چین پاک اقتصادی راہداری کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور پاکستان بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرےگا۔
اس سے پہلے جنرل راحیل نے کوئٹہ میں ایک اجلاس کے دوران خفیہ ایجنسیوں کو ملک بھر میں شدت پسندوں کے خلاف کومبنگ آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔