بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جو 3 لاکھ 71 ہزار 190 اسکوائر کلومیٹر پر واقع ہے۔ بلوچستان کے کُل 32 اضلاع ہیں جن میں سے جھل مگسی، نصیرآباد، جعفرآباد، صحبت پور اور سبی کا کچھ حصہ چھوڑ کر باقی بلوچستان کا اسٹرکچر پہاڑی اور نیم پہاڑی ہے۔
گزشتہ 140 برس میں یہاں 34 بار خشک سالی کے سائیکلز آچکے ہیں اور اس سال بھی بارشیں نہ ہونے کے باعث بلوچستان 35ویں خشک سالی کے دور سے گزر رہا ہے۔
2018 کے ریکارڈ کے مطابق مئی سے اگست تک بلوچستان میں معمول سے کم 45 اعشاریہ 7 فیصد بارشیں ہوئیں۔ریتیلے نظاروں اور مٹیالے پہاڑوں کا حسن تو بے مثال ہے تاہم پانی کی کمی نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور مال مویشیوں کو بھی پریشان حال کر دیا ہے۔
مگر سخت موسموں سے مقابلہ کرنے والے سخت جان مقامی افراد نے حالات سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے اور مقامی آبادی نے بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے ساتھ مل کر پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر کام شروع کردیا ہے جس کی ایک مثال ضلع پشین کلی زرغون میں بننے والا ڈیلے ایکشن ڈیم ہے۔
آغا محمد، جو یونین کونسل خوشاب ضلع پشین کی مقامی معاون تنظیم کے صدر بھی ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے بہت پُر امید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیلے ایکشن ڈیم بنانے پر کُل 21 لاکھ روپے کی لاگت آرہی ہے اور تین ماہ میں اسٹرکچر تیار ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کمیونٹی کا شئیر بھی ہے اور لیبر بھی ہے، اس لیے یہ سستا بن رہا ہے اور اس ایک چھوٹے ڈیم سے 4 سے 5 گاؤں کو فائدہ ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور درختوں کی کٹائی سے بلوچستان کے موسموں کا پیٹرن بھی بدل گیا ہے۔ پہلے پہل زیارت اور کوئٹہ میں 17 سے 18 فٹ برف باری ہو جاتی تھی مگر اب کبھی برف پڑ بھی جائے تو ایک سے ڈیڑھ فٹ سے ذیادہ نہیں ہوتی۔ گزشتہ 40 سال سے سبی کا علاقہ بلوچستان کا گرم ترین ضلع ہوتا تھا اور اب پچھلے 2 سے 3 سال میں تربت سب سے گرم علاقہ بن گیا ہے، جہاں درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔
زیارت میں 2 برس میں واٹر ٹیبل 200 فٹ نیچے آگیا ہے۔ اس کے علاوہ نوشکی، وارشک، آواران، خاران، تربت اور پنجگور میں بھی خشک سالی تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے جبکہ مون سون زون میں واقع ہونے کے باوجود لورالائی کا واٹر ٹیبل نیچے آ رہا ہے۔
اس حوالے سے ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی ای پی اے بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل طارق زہری کہتے ہیں کہ جو پانی ہمارے پاس آ رہا ہے، ذخائر نہ ہونے کے باعث اس کا 80 فیصد ضائع ہو رہا ہے، ہم ضائع ہونے والا 30 سے 40 فیصد پانی صرف 200 ارب روپے میں محفوظ کر سکتے ہیں اور اس سے پانی کا گرنے والا واٹر لیول اوپر آ جائے گا۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ آنے والے 5 برسوں میں تمام صوبے اور فیڈریشن اپنے کُل بجٹ کا کم از کم ایک تہائی پانی پر خرچ کریں تو پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ہم کم وقت میں زیادہ وسائل استعمال کر بیٹھے ہیں اس لیے ہمیں ایک سال میں 3 سال کا کام کرنا ہے۔
بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ایسے قدرتی لینڈ اسکیپ موجود ہیں جس میں پانی کے چھوٹے چھوٹے اسٹرکچر بنا کر واٹر ٹیبل اوپر لانے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے بلوچستان کا آبپاشی کا مقامی ذریعہ کاریز، جو خشک ہونے لگا ہے، وہ بھی دوبارہ چل پڑے گا۔
ملک میں بڑے ڈیموں کی افادیت اور اہمیت اپنی جگہ لیکن چھوٹے ڈیم اور پانی کے ذخائر بلوچستان کی ضرورت ہیں تاکہ ابر رحمت برسنے کی صورت میں بارش کا پانی بچا کر مقامی لوگوں کی زندگی کو سہل بنایا جاسکے ۔