حکمران جماعتیں بلوچستان کے تمام اضلاع کو فروخت کرنے کیلئے سائن بورڈ لگائیں، سردار اختر مینگل
کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے مسائل کے آگے اقتدار اور وزارتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ وفاقی حکومت نے 100 دنوں میں ایک دن بھی بلوچستان کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ حکومت اور حزب اختلاف میں شامل جماعتوں میں سے جو بلوچستان کے مسائل حل کرنا چاہے، ہم اس کا ساتھ دینگے۔ بلوچستان عوامی پارٹی میں تنازعات کی وجہ بچوں کا زیادہ اور جائیداد کا کم ہونا ہے۔ چینی قونصل خانہ پر حملہ سے متعلق اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ سی پیک کے منصوبوں کو دیگر صوبوں کو منتقل کرکے ژوب میں مٹھائیاں کھانے والے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قوم پرستوں کو آج ہمارے موقف کی سمجھ آرہی ہے۔ پونم کے غیر فعال ہونے کی وجہ محمود خان اچکزئی بنے۔
گذشتہ روز پارٹی رہنماء ملک ولی کاکڑ کی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا مزید کہنا تھا کہ بی این پی نے وفاق میں وزیراعظم، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور صدر مملکت کے انتخاب کے بدلے تحریک انصاف کے آگے وہ چھ نکات رکھے، جس پر عملدرآمد سے بلوچستان کے دیرینہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ حکمران جماعت اور ہمارے درمیان اسلام آباد اور کوئٹہ میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں، مگر اپنے 100 دنوں میں ایک دن بھی وفاق نے بلوچستان کیلئے صرف نہیں کیا۔ صرف زبانی جمع خرچ سے بلوچستان کے مسائل نہ پہلے حل ہوئے ہیں، نہ آئندہ حل ہونگے۔ گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کو گھر کے چراغ سے آگ لگی تھی، اگر اب آگ لگنے جا رہی ہے تو اس میں بھی اپنے ہی لوگوں کا کردار ہوگا۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے جتنے بچے پال رکھے ہیں، اب جائیداد چھوٹی اور بچے زیادہ ہوگئے ہیں، ایسے میں تنازعہ تو ہوگا۔
بلوچستان میں بی این پی اپوزیشن میں ہے، جو فیصلہ ہوگا، اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے ہوگا۔ ہمارے لئے اقتدار اور حکومت نہیں، ہمارے مسائل اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کی ہمیشہ سے بدقسمتی رہی ہے کہ حکومتیں گذشتہ ہو یا موجودہ اپنی کمزوریوں اور نالائقی کو چھپانے کیلئے جھوٹ کا سہارا لینا ان کا وطیرہ رہا ہے۔ چینی قونصل خانہ پر حملہ میں ملوث افراد سے متعلق ہمارا موقف واضح ہے کہ جن کو شبہ ہے حملہ آوروں میں سے ایک کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں ہے، تو وہ اس فہرست کا جائزہ لیں، جو ہم نے قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ بنائی ہے۔ سی پیک کے روٹ کا افتتاح کرکے ژوب میں میٹھائیاں کس خوشی میں کھائی گئیں۔ کیک، پیسٹریاں، بریانی کھانے والوں میں بلوچستان اور خیبر پختونخواء کی قوم پرست جماعتوں کے نمائندہ شامل تھے۔ اس وقت ہم نے کہا تھا کہ سی پیک کے تحت بلوچستان کو کچھ ملنے والا نہیں ہے۔ بلوچستان سے کوئی مشرقی یا مغربی روٹ نہیں گزرے گا۔ روٹ، پاور پروجیکٹس اور صنعتی زون دیگر صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔
میری حکمران جماعتوں کو تجویز ہے کہ وہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں بڑے بڑے سائن بورڈ لگا کر ان پر بلوچستان برائے فروخت لکھ دیں۔ بلوچستان کو فروخت کر دیا گیا ہے، صرف تختی لگانے کی دیر ہے۔ بلوچستان میں پونم طرز پر ایک نئی جماعت تشکیل دینے سے متعلق سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کے اعتماد کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ وہ اب ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نئی جماعت تشکیل دینے سے قبل اعتماد کی فضاء پیدا کرنا ہوگی۔ جب پونم کی سربراہی محمود خان اچکزئی کو ملی تو وہ بتائیں کہ وہ کس حد تک فعال ہوئے۔ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں ان کی سیاسی سرگرمیاں کیا رہیں۔؟ پرویز مشرف کی آمریت میں پونم کی ایک اہم سیاسی جماعت کیخلاف کریک ڈاؤن کرکے مرکزی قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، اس کیخلاف پونم کا ردعمل کیا تھا۔؟