گڈانی میں ہلاکتوں میں اضافہ، آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا
ڈپٹی کمشنر لسبلیہ ذوالفقار علی نےبتایا کہ اس وقت تک 16 لاشیں برآمد ہوچکی ہیں جبکہ 58 کے قریب افراد زخمی ہیں جنھیں ہسپتالوں میں منتقل کیا ہے۔ تاہم فلاحی ادارے ایدھی کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 17 ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ یہ ایک بڑا جہاز ہے اور آگ کافی پھیلی ہوئی ہے جس پر قابو پانے کے لیے کم از کم 100 سے زائد آگ بجھانے والی سنارکل درکار ہیں جو ان کے پاس دستیاب نہیں۔
ضلعی حکام کے ساتھ پاکستانی فوج اور بحریہ کی ٹیمیں بھی کام کر رہی ہیں اور فضائی سپرے بھی کیا گیا ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے کنٹرول روم کے مطابق جہاز میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے پاکستان نیوی کے دو ہیلی کاپٹروں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گذشتہ شب ریسکیو آپریشن معطل کیا گیا تھا، جو دوسرے روز صبح تک بحال نہیں ہوسکا ہے اور اس معطلی کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ پانی ڈالنے سے دھماکے ہو رہے ہیں اور چونکہ آگ اس وقت انجن کے قریب پہنچ چکی ہے جہاں تیل اور گیس سلینڈر موجود ہیں، اس لیے آپریشن معطل کیا جا رہا ہے۔
تاہم ڈپٹی کمشنر نے اس کی تردید کی اور بتایا کہ مشاورت کے لیے یہ آپریشن معطل کیا گیا ہے کیونکہ اس علاقے میں یہ بڑا اور مختلف نوعیت کا واقعہ ہے۔
دوسری جانب سرکار کی مدعیت میں بحری جہاز کو سکریپ بنانے والی کمپنی کا مالک، ٹھیکیدار اور فورمین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جس کے بعد ایک ٹھیکیدار کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔
شپ بریکنگ یارڈ لیبر یونین کے سیکریٹری فنانس مشرف ہمایوں نے بی بی سی اردو کے محمد کاظم کو بتایا کہ یہ حادثہ جہاز سے تیل کی صفائی کے دوران پیش آیا تھا اور حادثے کا شکار ہونے والا جہاز پندرہ بیس روز قبل یارڈ میں توڑنے کے لیے لایا گیا تھا۔
مزدور تنظیموں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ متعدد مزدور تاحال لاپتہ ہیں اور آگ پر قابو پانے کے بعد ہی اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کے بارے میں پتہ چل سکے گا۔
مشرف ہمایوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ہلاک ہونے والے مزدوروں کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ پہلے جہازوں کو توڑنے سے قبل کوئٹہ سے ایک ٹیم آتی تھی اور کلیئرنس دینے کے بعد جہازوں کو توڑنے کا کام شروع ہوتا تھا لیکن ان کے بقول اب وہ ٹیم نہیں آرہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں مناسب اور جدید حفاظتی سہولیات نہیں جس کی وجہ سے وہاں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔
ادھر وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے اس واقعے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔
وزیراعلیٰ نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے تمام ٹھیکیداروں کو حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کا پابند کرنے اور حفاظتی اقدامات کی پابندی نہ کرنے والے ٹھیکیداروں کے لائسنس فوری طور پر منسوخ کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
گڈانی اور حب میں صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زخمیوں کی ایک بڑی تعداد کو کراچی کے سول ہپستال منتقل کیا گیا تھا، جن میں سے دس کے قریب کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی۔
بعض زخمیوں نے بتایا تھا کہ صبح دس بجے وہ معمول کے مطابق کام کر رہے تھے کہ دھماکہ ہوا اور جہاز کا ڈیک دھماکے سے اڑ گیا اور آگ لگ گئی، جس وجہ سے مزدوروں نے سمندر میں چھلانگ لگائی اور کچھ نے رسیوں سے نیچے اترنے کی کوشش کی۔
اس جہاز کے قریبی جہازوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو بھی چوٹیں آئیں ہیں۔ ایک مزدور نے بتایا کہ وہ چھپ گئے کیونکہ دھماکے سے لوہے کے ٹکڑے فضا میں پھیلے جو نیچے گر رہے تھے جس سے آس پاس کے مزدوروں کو بھی چوٹیں آئیں۔
یاد رہے کہ گڈانی میں 1970 سے ناکارہ بحری جہازوں کو لا کر انھیں سکریپ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی لوہے کی کل کھپت میں سے 25 فیصد یہ صنعت فراہم کرتی ہے اور اس کو خصوصی مراعات بھی دی جاتی ہیں۔
ان بحری جہازوں سے لوہے اور مشینری کے علاوہ لکڑی، الیکٹرانک مصنوعات، برتن اور شو پیس بھی نکلتے ہیں کو کراچی کی شیر شاہ مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔