پاناماکیس، جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 4 میں خطرناک دستاویزات موجود ہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر تیسری سماعت ہوئی، جہاں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر 4 میں کافی خطرناک دستاویزات موجود ہیں، ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز سے ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔ گذشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیئے تھے کہ جے آئی ٹی کا مقصد شریف خاندان کو موقع دینا تھا، شواہد کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو بھیجیں یا نااہلی سے متعلق فیصلہ کردیں۔
آج جب سماعت کا آغاز ہوا تو وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ کل میں نے وزیراعظم کا جے آئی ٹی میں بیان پڑھ کر سنایا تھا، وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو گوشواروں کی صورت میں آمدن اور اثاثوں کی تفصیلات دیں، لیکن جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثوں سے متعلق سوال نہیں کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں پیشی تک اور کوئی اثاثہ تھا ہی نہیں، اگر جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے، انہوں نے اور ان کے رشتہ داروں نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا جبکہ وزیراعظم کی کوئی بے نامی جائیداد بھی نہیں۔ وزیراعظم کے وکیل نے دلائل کے دوران نیب قانون کی شق (5 اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نیب قوانین کے مطابق ایسا شخص جس کے بیوی بچوں کے نام اثاثے ہوں، اسے اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جس نیب قانون کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، وہ تو کیس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ جبکہ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آمدنی ایک کروڑ اور جائیداد 5 کروڑ کی بنائی ہو تو اسے کیا کہیں گے؟۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قبضے والی جائیداد اگر آمدن سے زائد ہو تو وہ جوابدہ ہوتی ہے، جے آئی ٹی نے وزیراعظم پر جائیداد بچوں کے نام رکھنے کا الزام لگایا ہے، بچوں کی جائیدادیں بے نامی دار کیسے ہو سکتی ہیں؟ جبکہ لندن فلیٹس کے مالک کا نام بھی سامنے آچکا ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کسی جائیداد کا قبضہ اور اس کا فائدہ اٹھانا دو الگ چیزیں ہیں۔ خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی رو سے دونوں الگ چیزیں ہیں، احتساب کا قانون جائیداد میں رہنے والے پر لوگو نہیں ہوتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی اور قانونی تقاضوں کو سامنے نہیں رکھا گیا، جبکہ رپورٹ میں وزیراعظم کے نام اثاثوں کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے وزیراعظم کے وکیل سے کہا کہ آپ اپنے دلائل دہرا رہے ہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد پرانے معاملات ختم ہو چکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں نہیں کہا گیا کہ وزیر اعظم کا کوئی بے نامی دار ہے اور اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں لگائے گئے، جبکہ لندن فلیٹس کے بارے میں جے آئی ٹی نے نہیں کہا کہ اس کے اصل مالک وزیراعظم ہیں لیکن نام کسی اور کے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے بے نامی دار کی تعریف لکھتے وقت قانون میں غلطی ہو گئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں۔ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ خاندان کے سربراہ میاں شریف کا سرمایہ کاری کا فیصلہ تھا، یہ جائیداد لندن عدالت میں کیس کے ساتھ منسلک تھی، اس کیس میں میاں شریف، شہباز اور عباس شریف کے نام ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز میں میاں شریف اور خاندان کے دوسرے ارکان کے علاوہ حسن اور حسین شئیر ہولڈرز ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ان کا موقف ہے کہ جائیداد 2006ء میں حاصل کی گئی، کیا حسن اور حسین نے لندن کی جائیداد نواز شریف کے کہنے پر لی؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا مزید کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ سعودی عرب، دبئی اور لندن جائیدادوں کے فنڈز کہاں آئے، اس بنیادی سوال کا جواب نہیں مل رہا۔ جس پر وزیراعظم کے وکیل نے جواب دیا کہ جو بیان میں نے پڑھا اس میں قطری سرمائے سے جائیداد خریدنے کا بتایا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے تقریر میں اس کا ذکر نہیں کیا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وزیراعظم سے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے پوچھا تھا، وزیراعظم نے کہا کہ سیٹلمنٹ ہوئی تھی لیکن تفصیلات کا علم نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے نتائج بھی اخذ کیے ہیں۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قیاس آرائیوں پر مبنی نتائج اخذ کیے ہیں، وزیر اعظم اُن جائیدادوں اور رقم کے جوابدہ ہیں جو صرف ان کے نام ہے۔
خواجہ حارث نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وزیر اعظم 1990ء میں کاروبار سے الگ ہو چکے ہیں اور جو جائیدادیں کاروبار اور اثاثے بچوں کے نام ہیں اس میں وہ خود مختار ہیں، جبکہ وزیراعظم کا لندن فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا حسن اور حسین کے پاس کوئی ایسے کاغذات ریکارڈ پر ہیں جن سے نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق ظاہر نہ ہوتا ہو؟، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وزیراعظم لندن فلیٹس کے مالک نہیں ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حسین نواز کہتے ہیں کہ وہ بینیفیشل اونر ہیں، اگر ایسا ہے تو ثبوت دیں، ہمارے پاس جو کاغذات آئے ہیں ان میں مریم بینیفشل اونر ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس وزیراعظم سے نہیں، دوسرے فریق سے منسلک کیے ہیں، دوسرے فریق سے منسوب کرنا بھی قابل اعتراض ہے لیکن ابھی میں اس پر اعتراض نہیں اٹھا رہا، تاہم والیم نمبر 4 پر کچھ بات کروں گا۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ‘والیم 4 کے حوالے سے محتاط رہیں، اس میں بہت خطرناک دستاویزات ہیں’، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں ٹرسٹ ڈیڈ پر بھر بات ہوئی ہے اور کچھ نتائج بھی اخذ کیے گئے ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ لندن فلیٹ کے حوالے سے وزیراعظم کو جوڑنے کی جو بات تھی وہ قیاس آرائی پر مبنی ہے، اس حوالے سے کوئی شواہد کوئی دستاویز نہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ تمام کاغذات موجود ہیں، آپ کا پورا انحصار تو قطری (خطوط) پر ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی ملکیت کے بارے میں کوئی دستاویز موجود نہیں، برطانوی کمپنی منروا کے ساتھ سروس معاہدے پر کس نے دستخط کیے وہ کاغذ دکھا دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بیٹا کہتا ہے جائیداد خریدی دوسرا کہتا ہے حصہ میں ملیں، دیکھنا ہوگا کہ جائیداد نام کس کے ہے، جبکہ پیسے کہاں سے آئے اور کسے دیئے گئے یہ بھی واضح نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے مزید کہا کہ مالک کا نام بتا دیں خریداری کا سورس واضح ہوجائے گا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم شواہد اور تمام مواد کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں گے، آپ ریکارڈ دیں، کاغذات پر بات ختم ہوجاتی ہے۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سے بھی ریکارڈ طلب کرلیا۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت میں وقفہ آیا، جس کے بعد وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا۔ خواجہ حارث کے بعد وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل شروع کیے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جے آئی ٹی کے لیے عدالت کے حکم کو پڑھ لیں، جے آئی ٹی کو ہر طرح کا ریکارڈ حاصل کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اور تمام ادارے اس کے ساتھ تعاون کے پابند بنائے گئے۔ طارق حسن نے دلائل دیے کہ جے آئی ٹی نے ان کے موکل اسحٰق ڈار کو کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسحٰق ڈار کا کنکشن آپ کو میں بتا دیتا ہوں، گلف اسٹیل ملز میں اسحٰق ڈار کے بیٹے کے نام ٹرانزیکشنز ہیں، ہل میٹل سے اسحٰق ڈار کے بیٹے علی ڈار کی کمپنی کو رقم منتقل ہوئی، اسحٰق ڈار نے بیان حلفی کے ساتھ معافی مانگی، جس کے ذریعے کئی ٹرانزیکشنز کا علم ہوا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسحٰق ڈار کا بطور شریک (حدیبیہ پیپر ملز کیس) ٹرائل نہیں ہوا، نہ وہ عدالت سے بری ہوئے، اسحٰق ڈار حدیبیہ کیس میں شریک ملزم سے وعدہ معاف گواہ بنے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ جب آپ سلطانی گواہ تھے اُس وقت آپ نے اعتراض نہیں اٹھایا؟۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کو بیان حلفی دینے پر معافی ملی، اگر اعترافی بیان کو تسلیم نہیں کرتے تو معافی بھی ختم ہو جاتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے استفسار کیا کہ کیا جب معافی ختم ہوگی تو معاملہ دوبارہ بحال نہیں ہوگا؟، ایڈووکیٹ طارق حسن نے کہا کہ پاناما کیس کے عبوری فیصلے میں اسحٰق ڈار کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ‘یہ دیکھیں درخواست میں اسحٰق ڈار کے خلاف ریلیف کیا مانگا گیا’۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے کہا کہ ‘نااہل کریں، اُس وقت ہم نااہل نہیں کرسکتے تھے، مزید تحقیقات کروائی ہیں اگر درست ثابت ہوئیں تو خود فیصلہ کریں گے’۔ طارق حسن ایڈووکیٹ نے دوبارہ کہا کہ جے آئی ٹی کے کام میں بد نیتی شامل تھی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کوئی نئی بات ہے تو وہ کریں، آپ کو ہمارے فیصلے کے حوالے سے مزید دستاویزات دینی ہیں تو دیں، آپ کو ٹرائل کا پورا موقع ملے گا، آپ کے خلاف درخواست پر کوئی فیصلہ تو نہیں کیا۔ جس پر طارق حسن نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی میری دستاویزات کا جائزہ لیتی تو اس نتیجے پر پہنچتی کہ میرے موکل کے اثاثے کم ہوئے، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی نے میرے موکل کو قصور وار کیوں قرار دیا؟۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ سے جے آئی ٹی نے کاروبار کا پوچھا، کمائی پوچھی، آپ نے تو کہا کمائی نہیں بتا سکتا، یہ میرا استحقاق ہے، آپ نے تو کوئی دستاویزات نہ دینے کا موقف اپنایا، پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میں نے حقائق بتائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ رویہ صرف آپ نے نہیں اس کیس میں سب نے اپنایا۔
ایڈووکیٹ طارق حسن نے کہا کہ انہیں کاغذات جمع کروانے کا موقع دیا جائے، جس پر عدالت عظمیٰ نے اسحٰق ڈار سے متعلقہ کاغذات طلب کرتے کیس کی سماعت کل بروز جمعرات (20 جولائی) تک کے لیے ملتوی کردی، جہاں اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن دلائل جاری رکھیں گے۔