پی ایس 114 ضمنی الیکشن، ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق فیصلہ محفوظ
اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 114 کے ضمنی انتخابات میں متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کامران ٹیسوری کی درخواست پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ نے مذکورہ درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے امیدوار کامران ٹیسوری کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے فاتح امیدوار سینیٹر سعید غنی کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن پیش ہوئے۔
کامران ٹیسوری کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نتائج مرتب کرتے وقت میرے موکل کو ریٹرننگ افسر نے نوٹس جاری نہیں کیا جبکہ پی ایس 114 کے 21 پولنگ اسٹیشنوں میں نتائج مرتب کرتے وقت قواعد کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔
پی ایس 114 کے 92 میں سے 21 پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹوں کی گنتی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ ان پولنگ اسٹیشنوں پر انتخاب کو کالعدم قراردیا جائے اور نادرا سے ان ووٹوں کی تصدیق بھی کرائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے کامران ٹیسوری ضمنی الیکشن جیت رہے تھے کہ ووٹنگ کے آخری وقت میں بوگس ووٹ ڈالے گئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کا عمل شواہد ریکارڈ کرنے کے مترادف نہیں ہوگا جس کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا کہ نادرا 2 ہفتے میں انگوٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق کرسکتا ہے جبکہ سپریم کورٹ بھی ماضی میں نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کرا چکی ہے۔
انہوں نے ووٹنگ کے ریکارڈ میں ردو بدل پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس 114 ضمنی الیکشن کا سارا ریکارڈ سندھ حکومت کے پاس ہے لہٰذا انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں ووٹنگ کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ نہ کی جائے۔
ایم کیو ایم کے وکیل نے پی پی پی کے سعید غنی پر انتخابی مہم پر حد سے زائد اخراجات کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔
پی پی پی کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے 5 رکنی کمیٹی کے سامنے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ایس 114 کے ضمنی الیکشن کے روز کسی بھی امیدوار یا ایجنٹ نے بے ضابطگی کی کوئی شکایت درج نہیں کرائی اور نہ ہی کسی پولنگ افسر یا ریٹرننگ افسر کے سامنے ووٹوں کی گنتی میں بے قاعدگی کی شکایت درج کرائی گئی۔
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انتخابی نتائج فی الفور الیکشن کمیشن کو فراہم کردیے گئے لہٰذا جب نتائج ہی الیکشن کمیشن کے پاس چلے گئے تو انتخابی ریکارڈ میں ٹمپرنگ کیسے ہوسکتی ہے۔
پی ایس 114 کے فاتح امیدوار کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سعید غنی گذشتہ 3 برس سے اپنے حلقے میں کام کرتے رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری فروری 2017 میں ایم کیو ایم میں شامل ہوئے جبکہ الطاف حسین کے خارج ہونے کے بعد اب کراچی میں لوگ نکل کر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔
اعتزاز احسن نے الیکشن کمیشن سے ایم کیو ایم کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی جبکہ نادرا سے ووٹوں کی تصدیق کرانے کی بھی مخالفت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم کو ضمنی الیکشن پر کوئی اعتراض ہے بھی تو وہ الیکشن ٹریبونل سے رجوع کرے۔
بعدازاں الیکشن کمشن نے ایم کیو ایم کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل بروز جمعرات (20 جولائی کو) سنایا جائے گا۔
یاد رہے کہ اتوار 9 جولائی کو پی ایس 114 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سعید غنی نے متحدہ قومی موومنٹ کے کامران ٹیسوری کو 5734 ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر میدان مارلیا تھا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر پر رہی تھی۔
جس کے بعد کامران ٹیسوری نے الیکشن کمیشن میں انتخابات کے نتائج کو چیلنج کردیا تھا۔