نااہلی کیس، عمران خان کے گوشوارے سپریم کورٹ میں پیش
اسلام آباد: تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے ٹیکس گوشوارے سپریم کورٹ میں جمع کرادیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے پی ٹی آئی چیرمین کے ٹیکس گوشوارے سیل شدہ ڈبے میں عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ گوشواروں سے واضح ہو جائے گا کہ عمران خان نے ٹیکس چوری نہیں کی۔ عدالت نے نعیم بخاری کو اضافی دستاویزات کل تک جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 31 جولائی تک ملتوی کردی۔
سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار حنیف عباسی کے مطابق عمران خان نیازی سروسز چھپا کر صادق اور امین نہیں رہے، ان مقدمات کا جلد فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، عدالت کی دلچسپی یہ ہے کہ اکاؤنٹ میں کتنی رقم آئی اور خریداری کے لیے کتنی رقم ادا کی گئی، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ کیا عمران خان کے اکاؤنٹ میں اتنی رقم تھی؟ بنی گالہ اراضی کے معاملے پر بھی آپ نے کہا تھا کہ ایک لاکھ ڈالرز ٹریس نہیں ہو رہے۔
نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بنی گالا کے لیے رقم جمائمہ نے بھیجی جو انہیں بعد میں واپس کی گئی، اگر طلاق نہ ہوتی تو آج بھی جمائمہ بنی گالا اراضی کی مالک ہوتی، رقم جمائمہ کے ذریعے آنے کا واضح مواد موجود ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی وکیل نے جمائمہ کے انٹرویو اور عمران خان کی اسمبلی میں تقریر عدالت میں پڑھ کر سنائی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کو بتایا گیا کہ غیر ملکی آمدن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، صحیح وقت آنے پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں انہوں نے فلیٹ ظاہر کیا، عمران نے رائل ٹرسٹ بنک سے 13.75فیصد پر قرض لیا اور 1971 سے 1979 تک کیری پیکر سیریز کھیلی، 1988میں انہیں ایک لاکھ نوے ہزار پاوٴنڈز ملے، جبکہ 1983 میں لندن فلیٹ کی پہلی رقم 11750 پاؤنڈ ادا کی گئی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ کرکٹ سے زیادہ آمدن اشتہارات سے ہوتی ہے، عمران خان کو آسٹریلیا سے 75 ہزار ڈالر ملے ، سود کی رقم شامل کر کے فلیٹ کی قیمت ایک لاکھ 61 ہزار پاوٴنڈ ہو گئی، کاؤنٹی کرکٹ 20 سال پرانا ریکارڈ نہیں رکھتی اس لیے کاؤنٹی کرکٹ کا ریکارڈ نہیں مل سکا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران کے بینک ریکارڈ میں ہر ماہ تنخواہ آنا ظاہر نہیں ہوتا، بنک ٹرانزیکشن صرف اسسیکس کی دو ادائیگیوں کو ظاہر کرتی ہے۔