اسلام آباد

سانحہ راولپنڈی کے تمام کرداروں کو بےنقاب جبکہ بیگناہوں پر درج مقدمات ختم کئے جائیں، علامہ ناصر عباس جعفری

اسلام آباد: مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور جمیت علماء پاکستان نیازی گروپ کے رہنماوں نے دو ہزار تیرہ کے راجہ بازار سانحہ کی تحقیقات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے پس پردہ تمام کرداروں کو بےنقاب کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ علامہ ناصر عباس کہتے ہیں کہ اس سانحہ کے ذریعے ملک میں شیعہ سنی فسادات پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے سب خدشات سچ ثابت ہوئے۔ اسلام آباد میں مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ سانحہ عاشورہ راولپنڈی 2103ء کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی میڈیا بریفنگ ہمارے موقف کی تائید ہے کہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں شیعہ سنی اختلافات قطعی طور پر نہیں ہیں۔ رہنماوں نے کہا کہ راجہ بازار مسجد کو آگ لگانے کی سازش مسجد کے اندر تیار کی گئی، جس کا مقصد راولپنڈی کی پرامن فضا کو آلودہ کرکے فرقہ واریت کی آگ کو پورے ملک میں پھیلانا تھا۔ علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ شیعہ سنی اکابرین نے شرپسند عناصر کے مذموم عزائم کو وحدت و اخوت کے ہتھیار سے شکست دی۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ عاشور کے اصل ذمہ دار حکومتی صفوں میں موجود وہ وزراء ہیں، جو مختلف ٹاک شوز میں شرپسندوں کی مظلومیت کا رونا روتے رہے اور ملت تشیع کو مورد الزام ٹھراتے رہے۔ جو جلوس کے روٹ مسلسل تنازع کی وجہ قرار دے کر اسے بدلنے پر زور دیتے رہے۔ سانحہ کے پس پردہ تمام کرداروں کو بےنقاب کیا جانا چاہیے۔

علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد ہمارے سینکڑوں نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایا گیا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی کی گئی۔ بےگناہ افراد کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناکر ہمارے نوجوانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اقرار کریں کہ انہوں نے مسجد میں گھس کر قتل عام کیا۔ 100 سے زائد افراد پر سرکار کی مدعیت میں مقدمات درج کئے گئے۔ جن کی وہ آج تک پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ پولیس کیس کے نتیجے میں ہمارے نوجوانوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ بیشتر گھروں کے چولہے بجھ گئے۔ سوشل میڈیا اور مخصوص مکتب فکر کی مساجد سے ملت تشیع کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ ہوا، جس پر لوگ مشتعل ہوئے اور ہمارے امام بارگاہوں کو جلا دیا گیا۔ ٹائر بازار امام بارگاہ کو آگے لگانے کے نتیجے میں امام بارگاہ میں موجود ایک سنی العقیدہ بزرگ دم گھٹنے سے شہید ہوگئے۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ حفاظت علی شاہ امام بارگاہ کو ذوالجناح اور تبرکات سمیت جلا دیا گیا۔ ہمیں نہ صرف تکفیری دہشت گردی کا سامنا تھا بلکہ ریاستی جبر کے بھی سارے حربے ہم پر استعمال کئے گئے۔ ہماری عزاداری پر قدغن لگانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ہمارے بزرگ علماء کو شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا۔ مجلس کے اشتہارات لگانے پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمات بھی ہمیں سہنے پڑے۔ ہمیں مشتعل کرنے کے سارے طریقے استعمال کئے گئے، لیکن ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہم ارض پاک کے وفادار بیٹے ہیں، قانون و آئین سے انحراف ہمارے خمیر میں نہیں ہے۔ اس کے برعکس امام بارگاہوں کو نذر آتش کرنے والوں کو آج تک سزائیں نہیں سنائی جا سکیں۔

رہنماوں کا کہنا تھا کہ مسجد کو آگ لگانے والوں کے لئے سرکاری سطح پر کروڑوں روپے کی ادائیگی کی گئی۔ اس کے علاوہ تکفیری فکر کا پرچار کرنے والی جماعتوں کی طرف سے بھی غیر معمولی فنڈز دیئے گئے، جس سے تکفیریوں کو معاشی سپورٹ حاصل ہوئی اور ملک دشمن عناصر مزید مضبوط ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کے واقعہ کی حقیقت سامنے آنے کے بعد ہمارے نوجوانوں پر مقدمات کا کوئی جواز نہیں رہتا، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس ایف آئی آر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے خارج کیا جائے۔ جن بےگناہ افراد کو بلاوجہ اسیری کی اذیت برداشت کرنا پڑی ہے اور ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے، ان کے لئے حکومت ملازمتوں کا اعلان کرے۔ جن لوگوں سے سرکاری ملازمتیں چھن گئیں، انہیں بحال کیا جائے اور ان کے بقایاجات ادا کئے جائیں، اس سازش میں ملوث تمام عناصر کو منظر عام پر لایا جائے، چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہے یا کسی ریاستی ادارے سے۔ ایم ڈبلیو ایم کے رہنماوں کا کہنا تھا کہ امام بارگاہوں اور مقدسات کو جلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسجد کو حکومتی تحویل میں لیا جائے، تاکہ آئندہ کسی کو شرپسندی کا موقعہ نہ مل سکے۔ انہوں نے پاک فوج کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے اس اہم پیش رفت کو قومی امن و سلامتی کے لئے غیر معمولی اقدام قرار دیا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close