پاناما کیس میں نواز شریف کو تمام ججز نے نااہل قرار دیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد: پاناما لیکس کے فیصلے کے خلاف دائر درخواستوں کی پہلی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ 28 جولائی کا فیصلہ پانچ رکنی بینچ نے سنایا تھا جب کہ دو ججز بیس اپریل کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے، بیس اپریل کے فیصلے کے بعد دو ججز کے بینچ میں بیٹھنے کا جواز نہیں تھا۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دو ججوں کا بیس اپریل کا فیصلہ آپ نے کہیں چیلنج نہیں کیا؟ جواباً خواجہ حارث نے کہا کہ دو ججوں کے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں تھی اکثریتی فیصلے کو تسلیم کیا گیا تھا اس لئے چیلنج نہیں کیا۔ خواجہ حارث نے دلائل میں یہ نکتہ اٹھایا کہ نوازشریف کو ایف زیڈ ای کمپنی کے معاملے پر نااہل کیا گیا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کیلئے باقاعدہ سماعت کی ضرورت ہے جب کہ شوکاز نوٹس دینا اور متاثرہ فریق کو سننا ضروری ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کا طریقہ نااہلی سے متعلق مختلف ہے قانون کے مطابق اثاثے نہ بتانے پر انتخاب کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اثاثے نہ بتانے پر کامیاب امیدوار کو نااہل نہیں کیا جا سکتا۔ پاناما لیکس کیس میں نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دینا بھی قانون کے مطابق نہیں ہے آج تک تحقیقات اور ٹرائل پر مانیٹرنگ جج کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ 28جولائی کے فیصلے میں یہ نہیں لکھا تھا کہ فیصلہ دینے والے ججز ہی عملدرآمد کرائیں گے، 28 جولائی کو پانچ رُکنی بنچ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا جس پر عدالت نے کہا کہ 28 جولائی کو 2 ججز نے فیصلے میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا اور پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے دلائل کے دوران نکتہ اٹھایا کہ جب آپ 20 اپریل کو فیصلہ دے چکے تو دوبارہ کیسے آسکتے ہیں؟۔ جس پر عدالت نے جواب دیا کہ 28 جولائی کو پہلے تین ججز پر مشتمل بینچ کا فیصلہ پڑھا گیا پھر 5 رکنی بینچ کا، ججز نے فیصلہ دیا تھا مگر کیس ختم نہیں ہوا تھا۔ فیصلے میں اکثریت کی بنیاد پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں۔ ہم نے 28جولائی سے قبل یہ بتادیا تھا کہ تمام ججز حتمی فیصلے پر پہنچ چکے ہیں، یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصلہ تین ججز کے فیصلے کی بنیاد پر ہے مواد مختلف ہوسکتا ہے لیکن نتیجہ ایک ہی تھا دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا فیصلے میں اکثریت کی بنیاد پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں۔
دوران سماعت خواجہ حارث ایڈوکیٹ نے کہا کہ اگر تین میں سے دو ججز درخواستیں خارج کر دیتے تو فیصلہ کیا ہوتا؟ جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ ایسی صورت میں 3/2کی اکثریت سے فیصلہ ہو جاتا، خواجہ حارث نے کہا کہ 2 ججز حتمی فیصلہ دے کر خود ہی بنچ سے نکل گئے، جس پر جسٹس کھوسہ نے استفسارکیا کہ تین ججز نے کہاں لکھا ہے کہ 2 ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلا گیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی الگ سے 5 رکنی بنچ قائم ہوتا تو معاملہ الگ ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کہتے ہیں اگر تین ججز کا فیصلہ اختلافی ہوتا تو نااہلی نہ ہوتی، پہلے 2 ججز کہہ چکے تھے مزید ایک جج بھی نااہل کرتا تو 3/2 سے فیصلہ ہونا تھا لیکن حتمی عدالتی فیصلہ پھر بھی 5 ججز کا ہی ہونا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ تین ججز نے فیصلہ تبدیل کیا تو عدالتی حکم تبدیل ہوجائے گا۔ دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 28 جولائی کا فیصلہ متفقہ تھا یہ کہیں نہیں لکھا دو تین کا تناسب ہے، نوازشریف کو سب ججز نے متفقہ طور پر نااہل کیا لیکن وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں جب کہ نیب کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ بھی متفقہ طور پر دیا گیا اور 28 جولائی کے فیصلے میں سابقہ فیصلے کے تسلسل کا لکھا ہے، تسلسل کا مطلب ہے کہ تمام 5 ججز دستخط کریں گے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے کرنا تھا دیکھنا ہے فیصلہ تین رکنی بنچ کا تھا یا پانچ رکنی کالیکن حقیقت یہ ہے کہ 20 اپریل کو 3/2 کی ججمنٹ پاس ہوئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ 3 ممبرز بنچ کے فیصلے میں کچھ غلط ہے تو بتائیں جو باتیں واضح ہیں انہیں بار بار کیوں دہرایا جا رہا ہے؟ عدالت نے ایڈووکیٹ خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز آپ ہی نے 5رکنی لارجر بنچ پر زور دیا تھا آپ کے پُرزور اصرار پر ہی ہم بنچ میں بیٹھے ہیں ہم کہتے ہیں تین رُکنی بنچ کا فیصلہ ہی حتمی ہے، اس فیصلے میں ردوبدل ہی آرڈر آف کورٹ کو چیلنج کر سکتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جنہوں نے کیس نہیں سنا تھا ان کے سامنے نظر ثانی پر کیا دلائل دوں؟جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہی بات تو کل بھی آپ کو سمجھا رہے تھے، بنچ کے سربراہ نے کہا کہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں تین ججز کوہی اپنےدلائل سے قائل کرلیں۔ آپ نے 3 ججز کو مطمئن کرنا ہے انہیں کر لیں، ہم 2 جج تین ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی استدعا منظور کرتے ہوئے پاناما لیکس فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں پر پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا۔ بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کررہے ہیں جب کہ دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل،جسٹس عظمت شیخ سعید،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں