ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے
میں نہیں چاہوں گا کہ کسی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھینا جائے
چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ایک شخص کے ہاتھوں دو بار بے وقوف بننا شرمناک ہوگا
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔
نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے عام انتخابات 2024ء کے بعد حکومت سازی کی پارٹی پالیسی بیان کردی۔
انہوں نے ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے امکان کو رد کردیا اور کہا کہ ایک شخص کے ہاتھوں دو بار بے وقوف بننا شرمناک ہوگا۔
پی پی پی چیئرمین نے مزید کہا کہ ہم آزاد اراکین کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے، یہ مذاق ہے جو کہتے ہیں سیاست کو قربان کیا مگر ریاست کو بچایا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاناما ایک حقیقت ہے جس کا آج تک جواب نہیں دیا گیا، یہ خان صاحب کا بنایا ہوا نہیں تھا۔ پاناما ایک انٹرنیشنل ایشو تھا، لیکن یہ لوگ جیل سے نکل کر انہیں اپارٹمنٹ میں رہنے لگے جس کا پاناما میں الزام تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سے بھی انتخابی نشان چھینا گیا تھا، قانون میں لکھا ہوا ہے کہ انٹراپارٹی الیکشن ہوں، میں نہیں چاہوں گا کہ کسی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھینا جائے۔
پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی تب بھی کہا گیا کہ انٹراپارٹی الیکشن کرائیں، عدالت نے 2 دن تحریک انصاف کو موقع دیا کہ ثبوت اور دستاویزات لے کر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی لیگل ٹیم بغیر کسی تیاری کے عدالت میں گئے تھے، جس کا نقصان پارٹی کارکنوں کو اٹھانا پڑا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ وہی ضیا الحق کی مسلم لیگ بن کر میدان میں اترے ہیں، یہ تو ڈھٹائی سے کہتے ہیں پانامہ سازش تھی،آج تک منی ٹریل نہیں دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے ن لیگ کی محبت میں نہیں پاکستان اور جمہوریت کے لیے فیصلے لیے، ہمیں ن لیگ کی ضرورتی نہیں پڑے گی آزاد امیدواروں کے ساتھ ملکر حکومت بنائیں گے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ کس نے کہا کہ پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ اتحادی حکومت میں آئے گی، دسمبر سے خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں مہم چلا رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ چاروں صوبوں سے اچھا رسپانس مل رہا ہے الیکش میں سرپرائز دیں گے، عوام کی اکثریت نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم کبھی تشدد یا غیر جمہوری راستہ نہیں اپنایا، ہمارے فیصلے پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن ہماری نیت غلط نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سے ذاتی دشمنی نہیں انھوں نے 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ختم کرنا تھا، ہم سیاست میں لمبی اننگ کھیلیں گے، نظام میں بہتری لائیں گے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ اگست میں آئی ایم ایف ڈیل بڑی مشکل سے حاصل کی، اسی وقت سیلاب اور پنجاب میں ضمنی الیکشن آرہے تھے۔ اس وقت اتنے اہم موقع پر ٹیم میں اتنی بڑی تبدیلی بغیر مشاورت کیوں کی گئی، 3 ماہ کے لیے آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ان کی سوچ تھی کہ سیاسی فائدہ ہوگا اور یہ ضمنی الیکشن جیت جائیں، ان کے فیصلے سے معیشت کا نقصان ہوا اور یہ ضمنی الیکشن بھی ہارے۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر آخر میں شہباز شریف وزیر خزانہ کو پاکستان میں چھوڑ کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کیے، یہ ان کا سیاسی فیصلہ تھا جس کا نقصان اب ان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ شہباز شریف سے ورکنگ ریلیشن شپ بہتر رہا، 18ویں ترمیم کے بعد بہت سی وزراتیں ختم ہوجانی چاہیے تھیں، یہ 17 وزارتیں 2015 میں ختم ہونی چاہیے تھیں آج تک نہیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے سندھ میں 50 فیصد تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا، نجکاری مشکل کام ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بہتر کام کرتا ہے۔