شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 23 برس بیت گئے
اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب 1928ء میں بھارتی پنجاب کے دسوہہ ضلع ہوشیارپورمیں پیدا ہوئے، انہیں شاعرِعوام اورشاعرِانقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جالب نے اینگلوعربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی اورایک نجی روزنامہ سے منسلک ہوئے، اس کے بعد لائل پورٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیارکرلی۔
،پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957میں شائع ہوا، مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالاخرلاہور میں مستقل آباد ہوگئے، آپ اپنے ہی اس شعرکی عملی تفسیرتھےکہ
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑآئے
آزادی کے بعد کراچی آگئے اورکچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدربخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اورانھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔1956ء میں جالب نے لاہورمیں رہائش اختیار کی۔
ایوب خان اور یحیٰی خان کے دورِآمریت میں متعدد بارقید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960 کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے’سرِمقتل‘ کے عنوان سے چند اشعارکہےجو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں میں بہت خوبصورت شاعری کی جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپوراحتجاج کيا۔
نومبر 1999 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔
1958میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پرجالب نے اپنیمشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگادی۔ ،
ایسے دستورکو، صبح بےنورکو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
ے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا بلکہ ان پرگولیاں برسائیں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کررہا تھا تو یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہہ رہے تھے
محبت گولیوں سے بورہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسندِ اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا، اسی دورمیں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی
قصرشاہی سے یہ حکم صادرہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوااوراس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں کہا
ظلمت کو ضیاء صرصرکوصبا
بندے کوخدا کیا لکھنا
آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دورحکومت آیا اورعوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہربلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔
آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔
آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔ آپ کی وفات 12 مارچ 1993 کو لاہورمیں ہوئی۔