پاکستانی وزیرِ اعظم سعودی عرب اور ایران کے ’مصالحتی مشن‘ پر
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے تناظر میں پیر کو ’مصالحتی مشن‘ پر سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے بیان کے مطابق اپنے اس دورے کے دوران وہ منگل 19 جنوری کو ایران بھی جائیں گے اور دونوں ممالک کے دورے کے دوران اعلیٰ سطح کا ایک وفد بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہوگا۔
اس سے قبل پاکستان نے کہا تھا وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے تناظر میں عدم مداخلت کے اصول پر کاربند رہنا چاہتا ہے اور وقت آنے پر اپنا کردار ادا کرے گا۔
اتوار کو جاری ہونے والے بیان میں دفترِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی گہرے برادرانہ تعلقات ہیں اور اسے ان دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی پر تشویش ہے۔
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ دونوں ملک اپنے باہمی اختلافات کو اس مشکل وقت میں امتِ مسلمہ کے اتحاد کی خاطر پرامن طریقے سے حل کریں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن ممالک میں برادرانہ تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
پاکستانی وزیرِ اعظم سعودی عرب اور ایران کے دوروں کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے سعودی عرب کا اتحادی ہے اور حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر دفاع اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر خارجہ عادل الجبیر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
نواز شریف کے ساتھ پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی ایران اور سعودی عرب کے دورے پر جا رہے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلمان السعود نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران بھی وزیرِ اعظم نواز شریف کے علاوہ جنرل راحیل شریف سے بھی ملاقات کی تھی۔
فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق جنرل راحیل نے اس موقع پر سعودی وزیرِ دفاع کو بتایا تھا کہ پاکستان خلیجی ریاستوں کی سلامتی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات حال ہی میں اس وقت کشیدہ ہوئے جب سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دی گئی۔
اس سزائے موت کے بعد ایران میں شدید ردعمل سامنے آیا اور سعودی سفارتخانے پر مظاہرین نے حملہ بھی کیا۔
اس حملے کے بعد سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔