پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کیلئے حکومتی ٹی او آرز مسترد کردیئے
اسلام آباد: اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق طے کردہ ٹرمز آف ریفرنس مسترد کردیئے۔
تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے ملاقات کی جس میں پاناما لیکس سے متعلق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے پانامالیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن پر اعتماد میں نہ لئے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔
بعدازاں مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران اپوزیشن لیڈر خورشید کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں سب کا احتساب ہونا چاہیئے، اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس 2 مئی کو اعتزاز احسن کے گھر پر طلب کرلیا گیا ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا اور سپریم کورٹ بار کے ممبران اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھا گیا خط بے مقصد ہے، جوڈیشل کمیشن کے لئے ہماری مشاورت کے بغیر ٹی او آرز بھیجے جنہیں دیکھ کر شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہمیں حکومتی ٹی او آرز قبول نہیں ، پانامالیکس کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیئے اور سب سے پہلے وزیراعظم اور ان کے خاندان کا احتساب ہونا چاہیئے۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت بااختیار کمیشن بنانا چاہتی ہے تو تمام جماعتوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ٹی او آرز طے کرے، اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام نے ہر جمہوری تحریک میں اپنا کردار ادا کیا اسی لئے تحریک انصاف سندھ جارہی ہے جہاں صرف کرپشن کے ایجنڈے پر بات ہوگی۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو سے براہ راست کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ کسی دوست کے ذریعے سے اپنے جذبات پہنچائے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سے ملاقات سے قبل پارلیمنٹ میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ جس طرح پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کا قیام اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ مطالبہ تھا بالکل اسی طرح سب سے پہلے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے اہلخانہ کا احتساب بھی تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ مطالبہ ہے جب کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی خواہش کے عین مطابق جوڈیشل کمیشن کے لئے خط لکھا گیا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ حکومت کی جانب سے کمیشن کو 1947 سے آج تک ملک میں کی گئی کرپشن کی تحقیقات کے لئے کہا گیا ہے جو کسی صورت قبول نہیں، اگر کمیشن نے 1947 سے انکوائری کا آغاز کیا تو یہ تحقیقات 100 سال میں بھی مکمل نہیں ہوں گی۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 1947 سے کرپشن کی تحقیقات میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے لئے علیحدہ کمیشن بنایا جائے، نواز شریف اس ملک کے سب سے بڑے سربراہ ہیں اس لئے چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والا کمیشن صرف وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا احتساب کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اپنے اوراہلخانہ کے اثاثےغلط ظاہر کرنے پر نااہل ہو سکتے ہیں، یہ سمجھ نہیں آرہا کہ وزیراعظم کی جانب سے جلسوں کا اعلان پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کے خلاف ہے یا پھر وہ خود اپنے خلاف جلسے کریں گے، ہم نے پاناما لیکس کے حوالے سے 2 مئی کو اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا، اگر حکومت نے انکوائری کمیشن کے حوالے سے ہماری شرائط قبول نہ کیں تو پھر آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جا سکتی ہے۔