پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ہاتھ ،اشرف غنی کاغیر سفارتی بیان،حنا ربانی کھر
اسلام آباد : سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ہاتھ کوئی نئی بات نہیں ٗ کوئی بھی ملک یہ سمجھے کہ دوسرے ملک میں آگ لگائے گا تو اس کا اپنا گھرنہیں جلے گا تو یہ غلط فہمی ہوگی ٗافغان صدر اشرف غنی کا بیان سفارتی آداب کے خلاف تھا ٗہمارے دور میں خارجہ پالیسی حکومت بناتی تھی ٗ فوج کا کردار سرحدی تنازعوں اور سکیورٹی امور پر مشاورت تک محدود ہوتا تھا۔بی بی سی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ پاکستان کے اندر بھارتی مداخلت کے بارے میں زیادہ معلومات تو وزیر داخلہ کے پاس ہو سکتی ہیں تاہم وہ اتنا ضرور جانتی ہیں کہ بلوچستان اور افغانستان کے راستے بھارت پاکستان کے اندورنی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے اور پاکستان میں دہشتگردی میں کہیں نہ کہیں را کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار مشکل ہے حنا ربانی کھر نے کہاکہ سرحد کی دوسری جانب بھارت میں بھی اس الزام کو بار بار دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان بھارت میں دہشتگردی کو فروغ دیتا ہے۔خطے اور خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن کے امکانات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اگر کوئی بھی ملک یہ سمجھتا ہے وہ دوسرے ملک میں آگ لگائے گا اور اس کا اپنا گھر نہیں جلے گا تو یہ غلط فہمی ہو گی۔انہوں نے کہاکہ پاکستان ٗ افغانستان ٗانڈیا ٗایران اور چین ایک ہمسائیگی کا حصہ ہیں اور اگر میرے گھر میں آگ لگے گی تو نقصان پڑوسی کو ضرور پہنچے گا اگر پاکستان اور انڈیا کے خفیہ ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے کے گھر میں آگ لگا رہے ہیں تو میرا خیال یہی ہے کہ وہ اپنے ہی گھر میں آگ لگا رہے ہیں۔حنا ربانی کھر کے مطابق اس قسم کی حکمت عملی سے قومی مفادات کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ان سے پوچھا گیا کہ جب بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت اور دوستی کے امکانات نظر آتے ہیں تو بات بگڑ کیوں جاتی ہے، تو سابق وزیر خارجہ نے کہاکہ دونوں ممالک کے حکومتیں ڈھانچوں اور عوام میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو امن کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں ان عناصر کو ’میں نہ مانوں‘ کے نام دیتی ہوں اور یہ لوگ دونوں ممالک کے تعلقات کو اپنے ہی نظریے سے دیکھتے ہیں اور ایسے عناصر کی جبلت میں ہے کہ وہ امن کی بات نہیں کرنا چاہتے۔ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر بات چیت کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی واقعہ ہو جاتا ہے اور ہمیں ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے حنا ربانی کھر نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے حالیہ بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افغان صدر کا بیان سفارتی آداب کے خلاف تھا۔اشرف غنی صاحب نے واضح طور پر پاکستان پر الزام لگایا ہے ٗجو میری نظر میں نہ صرف غیر سفارتی ہے بلکہ اس بیان سے اشرف غنی وہ مقاصد نہیں حاصل کر سکتے جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس طرح کسی دوسرے ملک کو شرمندہ نہیں کرتے۔حنا ربانی کھر نے اپنے دورِ وزارت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں ملک کی خارجہ پالیسی سیاسی حکومت بناتی تھی اور اس میں فوج کا کردار سرحدی تنازعوں اور سکیورٹی امور پر مشاورت تک محدود ہوتا تھا۔ہمارے دور میں افغانستان کے ساتھ سرحدی اور سکیورٹی معاملات پر فوج سے بات ہوتی تھی جو ان کا جائز کردار ہے اور فوج کا یہ کردار انہی معاملات تک تھا۔اس حوالے سے انہوں نے کہاکہ بھارت کے ساتھ تجارت یا بھارت کو سب سے زیادہ ترجیحی ملک کا سٹیٹس دینے کا فیصلہ سیاسی حکومت کا فیصلہ تھا۔فوج اور نواز شریف حکومت کے درمیان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہاکہ اگر کوئی شخص اپنی آئینی ذمہ داری خود نہ لینا چاہے اور ایک خلاء پیدا کر دے تو کوئی دوسری طاقت آ کر اس خلاء کو پر کر دیگی تو غلطی کس کی ہے؟ خلاء پیدا کرنے والے کی یا خلاء پر کرنے والے کی؟اگر حکومت خود کوئی کْل وقتی وزیر خارجہ مقرر نہیں کرے گی تو اس خلاء کو کوئی تو پْر کرے گا۔