اسلام آباد

’مالک‘ پر پابندی کیوں؟، وفاق سے جواب طلب

لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے متنازع فلم ’مالک‘ پر پابندی عائد کیے جانے کے بارے میں وفاق اور سنسر بورڈ سے جواب طلب کر لیا ہے۔

عدالت نے یہ حکم جمعے کو محبوب عالم ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے بعد دیا جس میں فلم کی نمائش پر عائد پابندی ختم کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فلم ’مالک‘ عوام کو تفریح کے ساتھ آگاہی بھی فراہم کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اس فلم میں اسلام اور پاکستان کے خلاف کسی قسم کا مواد شامل نہیں کہ جسے بنیاد بنا کر اس کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے۔

درخواست گزار کے وکیل صائم چوہدری نے عدالت سے اس درخواست کا فیصلہ ہونے تک حکم امتناعی کے ذریعے فلم کی نمائش کی فوری اجازت بھی طلب کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے ابتدائی سماعت کے بعد فوری طور پر حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔

تاہم انھوں نے وفاقی حکومت، وزارت اطلاعات، وزارت کامرس اور چیئرمین فلم سنسر بورڈ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کر لیا ہے۔

اس کیس کی آئندہ سماعت 17 مئی کو ہوگی۔

خیال رہے کہ کسٹم گروپ کے سابق افسر اور اداکار و ہدایتکار عاشر عظیم کی اس فلم کو تقریباً تین ہفتے قبل نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا لیکن وفاقی حکومت نے 26 اپریل اس فلم کو دیا گیا سنسر سرٹیفیکیٹ منسوخ کرتے ہوئے ملک بھر میں اس کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی۔

حکومت کی جانب سے پابندی کے حکم نامے میں اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے جبکہ صوبۂ خیبر پختونخوا کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس پابندی کا خاتمہ چاہتی ہے اور صوبے میں قائم سینیما گھر اس فلم کی نمائش کر سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے کہا ہے کہ انھوں نے صوبے میں مالک فلم پر کوئی پابندی عائد نہیں کی اور وہ وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ پابندی فوری طور پر اٹھائی جائے۔

مشتاق احمد غنی نے

مشتاق احمد غنی کے مطابق ان کے قائد عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور یہ ان کی جماعت کا مشن ہے کہ ملک سے بدعنوانی کو ختم کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ فلم پر عائد پابندی فوری طور ہٹا لی جائے۔

ان سے جب پوچھا کہ اطلاعات کے مطابق اس فلم کے کرداروں سے صوبائی تعصب کا گمان ہوتا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس کے لیے کمیٹی ہے جو یہ فلم دیکھ کر فیصلہ کر سکتی ہے کہ آیا اس میں صوبائی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے یا نہیں۔ تاہم ان کی اطلاعات کے مطابق اس میں ایسے کوئی کردار نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایسا کچھ ہوگا تو کاٹ چھانٹ کی جا سکتی ہے۔

 کہا کہ جیسے سندھ حکومت نے پاکستانی فلم مالک پر پابندی عائد کی ہے اس طرز پر خیبر پختونخوا حکومت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت بھی یہ پابندی نہ لگائے۔

انھوں نے کہا کہ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سیاست دانوں کی بد عنوانی کے موضوع پر بننے والی اس فلم کو دیکھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادیِ اظہار رائے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

اداکار اور سابق کسٹمز افسر عاشر عظیم کی اس فلم کو تقریباً تین ہفتے قبل نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا، تاہم منگل کو حکومت سندھ کے سینسر بورڈ نےاس فلم پر ایک قابلِ اعتراض جملے کی وجہ سے پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا، جسے کچھ گھنٹے بعد ہی واپس لے لیا گیا۔

اس کے بعد وفاقی حکومت کے سینسر بورڈ نے اس فلم پر پابندی عائد کر دی۔

مشتاق احمد غنی نے کہا کہ ملک میں پاناما لیکس سے سیاست دانوں کی بدعنوانی منظر عام پر آگئی ہے اس لیے نواز لیگ نہیں چاہتی کہ لوگ یہ فلم دیکھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close