اسلام آباد فیس فلم فیسٹیول میں دو فلموں پر پابندی
پاکستان میں سینسر بورڈ نے اسلام آباد میں منعقدہ فیس فلم فیسٹیول میں دو دستاویزی فلموں کی نمائش کی اجازت نہیں دی۔
جمعے کو پاکستان نیشنل کونسل فار آرٹس میں دو روزہ فلمی میلے کا آغاز ہوا جس میں پاکستان اور بوسنیا ہرزیگوینا کے فلموں کی نمائش کے جا رہی ہے۔
تاہم اس فلمی میلے کے آغاز سے قبل مرکزی سینسر بورڈ کی جانب سے دو دستاویزی فلموں ’امنگ دی بیلیورز‘ اور ’بیسیجڈ ان کوئٹہ‘ کو میلے میں سکریننگ کی اجازت نہیں ملی۔
’امنگ دی بیلیورز‘ پاکستان میں دہشت گردی کے بیانے میں تبدیلی اور مقامی افراد کی شدت پسندی کے خلاف کوششوں کی عکاسی کرتی ہے جبکہ دوسری دستاویزی فلم صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہزارہ برادری کی کہانی بیان کرتی ہے۔
فیس فلم فیسٹیول کے ایک منتظم اریب اظہر نے
تصدیق کی کہ ان دونوں فلموں کو نمائش کی اجازت نہیں دی گئی۔
فلموں کی نمائش پر پابندی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی فلم کا فن کے نمونے کو جمالیاتی طور پر پرکھنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان پر کسی بھی صورت میں پابندی نہیں عائد ہونی چاہیے۔‘
کسی بھی فلم پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے اریب اظہر کا کہنا تھا کہ ’اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے اور ان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘
سینسر بورڈ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق اس ڈاکومنٹری فلم ’امنگ دی بیلیورز‘ میں ’ایسے مکالمے شامل ہیں جو پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا منفی تاثر قائم کرتے ہیں۔‘
اس فلم کے ہدایت کار محمد علی نقوی نے فیس بک پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہ افسوس اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’20 سے زائد ممالک میں نمائش کے باوجود اور 12 سے زائد ایوارڈز حاصل کرنے والی فلم کو اپنے ہی ملک میں نمائش سے روک دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’ہماری فلم ایک منفرد نکتہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جو عام طور پر ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں عالمی میڈیا میں پیش نہیں کیا جاتا۔ یہ فلم مسلم دنیا میں عسکریت پسند کے خلاف مقامی سطح پر جدوجہد دکھاتی ہے۔‘
پابندی کا سامنا کرنے والی دوسری ڈاکومنٹری فلم ’بیسیجڈ ان کوئٹہ‘ لندن میں مقیم فوٹوگرافر اور فلم ساز آصف علی محمد کی تخلیق ہے۔آصف علی محمد کا تعلق بھی ہزارہ برادری ہے اور انھوں نے
تایا کہ انھیں فیسٹیول میں اس فلم کی نمائش پر پابندی کا سن کر بہت حیرانی ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی کہانیاں بیان کرتی ہے۔
’ہزارہ برادی پاکستان کی حب الوطن ہے اور یہی اس فلم میں دکھایا گیا۔ اس فلم میں ریاست کے مخالف کوئی عنصر شامل نہیں ہے۔ ہم پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس فلم پر پابندی میرے لیے انتہائی حیران کن ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ یہ ان کی پہلی ڈاکومنٹری فلم تھی اور انھوں نے محدود عملے کے ساتھ گذشتہ دو برس میں اس کو تیار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں انھوں نے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے انٹرویوز شامل کیے گیے ہیں۔ ’اس میں ہزارہ افراد اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثات کے بارے میں بتاتے ہیں اور یہ پاکستان مخالف عنصر نہیں ہے۔