عمران خان کیخلاف درج مقدمات میں سے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنیکی درخواست مسترد
اسلام آباد: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف درج 4 مقدمات سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے عمران خان کے خلاف ایس ایس پی تشدد سمیت چار مقدمات کی سماعت کی۔ اس موقع پر عمران خان بھی موجود تھے۔ سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بابر اعوان نےمقدمات سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ طاہر القادری اور عمران خان نے لوگوں کو للکارا، ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین کے پاس ڈنڈے اور غلیل تھیں۔ مقدمے میں 50 سے 60 لوگوں پر الزام ہے لیکن پولیس نے 103 لوگ گرفتار کیے، عمران خان کو جس کیس میں سمن کیا گیا ہے وہ دہشت گردی کا مقدمہ نہیں۔ مقدمات میں کہیں بھی دہشت گردی کا عنصر نہیں ملا، ایس ایس پی تشدد کیس کے 11 گواہوں میں کسی نے عمران خان کا نام نہیں لیا۔ حکومت کو خوفزدہ کرنا دہشت گردی ہے تو سارے ٹی وی چینل دہشت گرد ہیں۔ وکیل استغاثہ نے بابر اعوان کے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دھرنا طاقت کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تھا اور اس میں عمران خان کا مرکزی کردار تھا۔ عمران خان نے تقریر کی کہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاوٴس پر قبضہ کریں گے، دھرنے کے دوران ریاستی اداروں اور سرکاری افسران پر حملے کیے گئے، عارف علوی نے عمران خان کو فون کر کے بتایا کہ پی ٹی وی پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ عمران خان اسی شہر میں موجود تھے لیکن عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہوئے۔ وہ ساڑھے تین سال بعد عدالت آئے، ملزم عمران خان کو تو ضمانت بھی نہیں ملنی چاہیے۔ وکیل استغاثہ کی جانب سے دلائل مکمل کرنے کے بعد بابر اعوان نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صرف تقاریر پر دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنایا جاسکتا۔ بیانات کی بنیاد پر دہشت گردی کے مقدمات بنانا ہیں تو وزراء پر بھی 2000 مقدمات بننے چاہئیں کیونکہ انہوں نے پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عوام کو تشدد پر ابھارا۔ عارف علوی اور عمران خان کی آڈیو ٹیپ فراہم کی جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست مسترد کردی۔ مقدمات میں ضمانت سے متعلق عمران خان کی درخواست کی سماعت 19 دسمبر کو ہوگی۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ڈرا اور دھمکا کر اپنے موقف سے پیچھے ہٹانے کے لیے دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ 2014 میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران مظاہرین نے سرکاری ٹی وی کی نشریات بند کرادی تھی جب کہ مظاہرین کے ایک حملے میں ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو بھی زخمی ہوگئے تھے۔