اسلام آباد

2017 میں داعش ملک میں بڑا خطرہ بن کر ابھری: رپورٹ

اسلام آباد: پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی سالانہ سیکیورٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرچہ سال 2017 میں دہشت گردی کے واقعات میں گذشتہ سال کی نسبت 16 فیصد کمی آئی تاہم داعش ایک بڑے خطرے کے طور پر ابھری،  جس نے 6 بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

اسلام آباد میں واقع پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز ایک تھنک ٹینک ہے، جس کے دائرہ کار میں پاکستان اور خطے کی سیکیورٹی اور تنازعات کی جہتوں کا جائزہ لینا شامل ہے۔

اس ادارے نے اپنی سیکیورٹی رپورٹ برائے 2017 میں شامل نکات اور اعداد و شمار کو مختلف ذرائع سے حاصل کیا ہے، جن میں انٹرویوز اور اس موضوع پر ماہرین کے مضامین شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے اعداد وشمار کچھ یوں ہیں:

دہشت گردی کے واقعات میں 16 فیصد کمی

رپورٹ کے مطابق 2017 میں گذشتہ سال کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں 16 فیصد کمی واقع ہوئی۔

گذشتہ برس پاکستان کے 64 اضلاع میں نسلی، فرقہ وارانہ اور مذہبی دہشت گردی کے 370 واقعات ہوئے، جن میں فائرنگ سمیت 24 خودکش حملے شامل تھے، جن کے نتیجے میں 815 ہلاکتیں ہوئیں اور 1736 افراد زخمی ہوئے۔

بلوچستان اور فاٹا خاص طور پر کرم ایجنسی سال 2017 میں بالترتیب 288 اور 253 ہلاکتوں کے سبب حساس ترین علاقے شمار ہوئے۔

ٹی ٹی پی اور قوم پرست جماعتیں مہلک خطرہ

رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جماعت الاحرار اور قوم پرست عسکریت پسند اب بھی ایک مہلک خطرہ ہیں۔

گذشتہ برس دہشت گردی کے  حملوں میں سے 213 حملے یا کل حملوں کا 58 فیصد یا تو کالعدم تحریک طالبان یا اس سے علیحدہ ہونے والے گروہوں جماعت الاحرار اور اس جیسے دیگر گروہوں نے انجام دیئے، جن میں 186 افراد ہلاک ہوئے۔

جبکہ قوم پرست دہشت گردوں کے حملوں میں 140 افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کی تعداد 138 تھی اور یہ ملک بھر میں ہونے والے حملوں کی کُل تعداد کا 37 فیصد تھا۔ ان میں سے بیشر بلوچستان میں جبکہ کچھ سندھ میں کیے گئے۔

ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کُل 19 واقعات ہوئے، جن میں 71 افراد ہلاک جبکہ 97 زخمی ہوئے۔

داعش کی موجودگی

رپورٹ کے مطابق سب سے اہم خطرہ داعش ہے جس نے ملک میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے اور اس نے پاک افغان سرحد کے قریب افغان علاقوں میں عسکری کاروائیاں کیں۔

گذشتہ برس پاکستان میں داعش اور اس کے حمایتیوں نے 6 مہلک حملے کیے، جن کے نتیجے میں 153 افراد ہلاک ہوئے۔

بلوچستان میں اس گروہ نے کوئٹہ سے چینی شہریوں کو اغواء اور بعد ازاں قتل کے علاوہ مستونگ میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے کو بھی نشانہ بنایا۔

سندھ میں ہلاکتوں کے لحاظ سے سب سے بڑا حملہ سیہون شریف میں ہوا اور اس کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ۔

نئے چیلنجز

اس دوران کچھ نئے چیلنجز بھی ابھر کر سامنے آئے۔ان میں ذاتی انفرادی حیثیت میں افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونا، چھوٹے چھوٹے سیلز بنا کر دہشت گردی کی کاروائیاں کرنا اور تعلیمی اداروں میں انتہاء پسند عناصر کا زور پکڑنا شامل ہے۔

رپورٹ میں شامل انٹرویوز

رپورٹ میں شامل قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کے انٹرویو کے مطابق نیشنل سیکیورٹی پالیسی مکمل ہوچکی ہے اور اسے حکومتی اراکین کے درمیان داخلی طور پر تقسیم کیا جا چکا ہے۔ اس کے اہم خطوط جنہیں سال 2018میں عام کیا جائے گا، میں بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی پس منظر کو مدنظر رکھا جائے گا۔

دوسری جانب نیکٹا کے کوآرڈینیٹر احسان غنی کے انٹرویو میں بیان کیا گیا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کی داخلی پالیسی ابھی نظر ثانی کے مراحل میں ہے، جس کی نظر ثانی شدہ شکل اور انسداد شدت پسندی پالیسی کا اعلان سال 2018 میں کیا جائے گا۔

نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، حکومتی سطح پر ابہام

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رائے میں ان دونوں انٹرویوز میں سے اخذ کیا جاسکتا ہےکہ ابھی تک حکومتی سطح پر یہ ابہام موجود ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کس حکومتی شعبے کی ذمہ داری ہے ۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر بدلتے ہوئے حقائق کو مدنظر رکھ کر نظر ثانی کرنا لازمی ہے اور اس پر عملدرآمد موثر بنانے کے لیے اسے دوطرفہ حکمت عملی میں تقسیم ہونا چاہیے۔ انسداد دہشت گردی کا حصہ ، جو کہ درپیش فوری مسائل کا حل تلاش کرے اور دوسرا حصہ جو کہ متشدد انتہا پسندی کے انسداد پر زور دے تاکہ دوررس نتائج ہوسکیں۔

اس دوران کالعدم جماعتوں اور افراد کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی بحث کے حوالے سے رپورٹ یہ بیان کرتی ہے کہ اس عمل میں ابہام کی گنجائش نہ رکھی جائے اور اس معاملے پر کوئی بھی حکمت عملی تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے بنائی جائے جس کی نگرانی پارلیمنٹ کرے اور اس طر ح کے افراد اور اداروں کو مرکزی دھارے میں لانے سے قبل کوئی پیشگی ضوابط لاگو کیے جائیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close