انڈونیشیا کے صدر کی دو روزہ دورے پر پاکستان آمد
اسلام آباد: انڈونیشیا کے صدر جوکو وڈوڈو جمعے کو دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے جس کے دوران وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔ مہمان صدر کے ساتھ انڈونیشیا میں قید کاٹنے والےکینسر کے مریض ذوالفقار کا معاملہ اٹھائے جانے کا امکان ہے۔
گزشتہ روز وزیر خارجہ خواجہ آصف نے جیونیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں یقین دہانی کروائی تھی کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ذوالفقار کا معاملہ صدر انڈونیشیا کے دورے کے موقع پر اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی انڈونیشیا کے صدر سے اپیل کریں گے کہ ذوالفقار کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے
وزیر خارجہ نے کہا کہ ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ ذوالفقار علی بے گناہ ہیں اور ان کے خلاف جنہوں نے گواہیاں دیں، انہوں نے بھی انہیں واپس لے لیا گیا ہے، امید ہے معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم پرامید ہیں کہ انڈونیشیائی صدر پاکستانی درخواست پر انکار نہیں کریں گے اور معاملہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر حل ہوجائے گا۔
ذوالفقار علی کی گرفتاری اورعدالتی کارروائی
انڈونیشیا میں قید کینسر کا مریض پاکستانی شہری حکومتی توجہ کا منتظر
52 سالہ ذوالفقار علی لاہور کے رہائشی اور 5 بچوں کے والد ہیں جو 17 سال قبل روزگار کی تلاش میں انڈونیشیا گئے تھے۔
21 نومبر 2004 کو انڈونیشیا کے مغربی صوبے جاوا میں انہیں 3 سو گرام ہیروئن رکھنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا جو کہ ایک بھارتی شہری نے ان پر عائد کیا تھا جو بعد میں واپس لے لیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ذوالفقار علی کو 2005 میں ہیروئن رکھنے کے جرم میں پہلی مرتبہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔
غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق ذوالفقار علی کو نومبر 2004 کوحراست میں لیا گیا تھا اور تفتیش کے دوران ذوالفقار پر تشدد کرکے بیان لیا گیا۔
تشدد کی وجہ سے ذوالفقار علی کو معدے اور گردوں کا آپریشن بھی کرانا پڑا تھا، مقدمے کے دوران انہیں ایک ماہ تک کوئی وکیل مہیا نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستانی سفارت خانے کے کسی اہلکار نے ان سے رابطہ کیا۔
ذوالفقار انڈونیشیا کی مقامی زبان سے ناواقف ہیں اور انگریزی بھی تھوڑی بہت جانتے ہیں۔ انہیں تمام تر عدالتی کارروائی کے دوران انگریزی میں محدود معاونت ہی حاصل ہو پائی۔
انڈونیشیا کی پولیس ذوالفقار کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کے لئے کسی بھی قسم کے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی اس کے باوجود انہیں موت کی سزا سنادی گئی۔