نواز شریف کے وکیل کو تیاری کیلئے ایک ہفتے کی مہلت، چیٹنگ کرنیوالے پر تاحیات پابندی ہونی چاہئیے: چیف جسٹس
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل کو کیس میں تیاری کرنے کےلئے ایک ہفتے کی مہلت دےدی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطاءبندیال , جسٹس شیخ عظمت سعید ,جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دینے کے معاملے پر آئینی و قانونی سوالات کا جائزہ لینے اور اس کی مدت کے تعین کے حوالے سے دائر 17 درخواستوں پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کی جانب سے کوئی عدالت میں پیش ہوا ہے جس پر وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میں نواز شریف کی نمائندگی کر رہا ہوں۔اعظم نذیر تارڑ نے عدالت سے درخواست کی کہ انہیں گزشتہ روز عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا تاہم اس کیس کی تیاری کےلئے ہمیں کچھ وقت دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کیس کی تیاری کےلئے ایک ہفتے کی مہلت دےدی۔ اعظم نذیرتارڑ نے عدالت میں بتایا کہ عام لوگ بھی اس کیس کا حصہ بننا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مشترکہ طور پر اس آرٹیکل سے متاثرہ لوگ اپنے لیے ایک وکیل کرلیں۔ پبلک نوٹس ان لوگوں کیلئے تھا جو متاثرہ ہیں۔ ثمینہ خاور حیات کے وکیل طارق محمود نے عدالت میں بتایا کہ سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ میں نوازشریف کی تقریر سے متعلق اسحاق خاکوانی کیس میں کہیں غلط بیانی نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نااہلی کے تین ماہ بعد ہی انتخابات ہوں تو کیا نااہل شخص ضمنی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے ۔جس پر طارق محمود نے کہا کہ نا اہلی 5 سال کےلئے ہوگی۔طارق محمود نے عدالت میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی تاحیات نااہلی کی مثال بھی دی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے سوال اٹھایا کہ عدالتی ڈکلیئریشن 5 سال کے بعد ازخود کیسے ختم ہوسکتا ہے؟۔ عدالتی معاون منیر اے ملک نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو ایسے پڑھنا چاہئے جس سے بنیادی حقوق میں رکاوٹ نہ پڑے۔ انہوں نے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 میں کچھ شقیں شامل کی گئیں اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں پہلی قسم مسلسل غلط اقدام اور دوسری قسم پچھلے کنڈکٹ سے متعلق ہوتی ہے۔منیر اے ملک نے کہاکہ 18 ویں ترمیم سے قبل کسی سابقہ غلط اقدام پر نا اہلی تاحیات تھی۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ وسیم سجاد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں ہم نے نوازشریف کیس میں کورٹ آف لا کا تعین کردیا ہے۔ایڈووکیٹ وسیم سجاد نے بتایا کہ آٹیکل 62 اور 63 ابہام کا شکار ہیں کیونکہ آرٹیکل 63 ریلیف کی بات کرتا ہے۔منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ بنیادی حقوق آئین میں دل کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں آرٹیکل 63 ایچ میں نظریہ پاکستان سے متعلق نااہلی کی بات کی گئی جبکہ آرٹیکل 62 ون ایف کووارنٹو کو کور کرتا ہے لہٰذا تاحیات پابندی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ منیراے ملک نے کہاکہ آرٹیکل 62 اور63 میں فرق تصوراتی ہے دونوں یک جان ہیں۔ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 کی 19 شقوں کو کم کرکے 16 کردیا گیا۔18ویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کی بھول بھلیوں سے نکلنے کی نیت واضح ہے، 18 ویں ترمیم میں فوج اور عدلیہ کے حوالے سے سزا آرٹیکل 63 میں 5 سال کردی گئی۔جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے نااہلی کے خلاف نظرثانی دائرکررکھی ہے۔سکندر مہمند نے کہا کہ وہ منیر اے ملک جیسے ہی دلائل دیں گے بس میں کچھ چیزوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ آرٹیکل 62، 63 عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 100 اور نیب قانون کی شق 15 میں تاحیات نااہلی کا ذکر نہیں کرتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی حد وسیع ہے۔ ہم نے آرٹیکل کے ایک ایک لفظ کو دیکھنا ہے اگر پارلیمنٹ سے کوئی کوتاہی رہ گئی تو اسکا طریقہ کار واضح ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی 5 سال ہے جس پر انہوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے لیکن میں اس میں سالوں کی حد کی بات نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالت کو ہر کیس میں نااہلی کی مدت کا الگ سے تعین کرنا ہو گا جس پر سکندر بشیر نے کہا کہ وہ اس معاملے میں کیس ٹو کیس مدت کے تعین کا حامی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس کیس میں 5 سال کےلئے نااہلی کا سوچ رہے تھے اور اگر کسی نے کہیں سے سفارش کروائی تو تاحیات نااہلی ہوگی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے۔ ایسا کرنیوالوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہئے۔ ایک دن اس شخص نے وزیر یا وزیراعظم بن جانا ہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے خلاف جرم کرنے والے سزا بھگت کر رکن اسمبلی بن سکتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہاں ہم لیڈر شپ ¾قومی اسمبلی اور سینیٹ کی بات کر رہے ہیں۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلطی پر الیکشن کالعدم ہوتاہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی عوام الناس کے ساتھ جھوٹ ہوگا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ نااہلی سزا ہے یا معذوری ہے؟ کیا سزا بھگتنے کے بعد کسی امیدوار پر قدغن ہوگی؟ کیا غداری کی سزا بھگت کر آنے والا الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا ؟جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت جرم دیوانی ہے فوجداری نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اہلیت اور نااہلیت میں فرق کا جائزہ لینا ہے۔ پارلیمنٹیرینز کیلئے ایمانداری بہت ضروری ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 میں ٹائم لمٹ نہیں تھی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ اگر آپ کو 18 ویں ترمیم سے پہلے نااہل کرتے تومدت کتنی ہوتی؟جس پر جہانگیر ترین کے وکیل نے جواب دیا کہ 18ویں ترمیم سے پہلے یہ نااہلی تاحیات ہوتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا عدالت کو ہر کیس میں نااہلی کی مدت کا الگ سے تعین کرنا ہوگا؟جس پر وکیل سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا کہ میں کیس ٹو کیس مدت کے تعین کا حامی نہیں ہوں۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی معاون منیر اے ملک نے بھی بنیادی حقوق کی بات کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ شناختی کارڈ پر نااہلی کو ہم دائمی قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شناختی کارڈ کے کیس میں 5 سال نااہلی کا سوچ رہا تھا۔ سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد سماعت (کل) جمعرات تک کےلئے ملتوی کردی گئی