جعلی ڈگری کیس میں قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا، چیف جسٹس
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ معاملہ ملکی وقار کا ہے اور اپنی قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر پی بی اے کی جانب سے پیش ہوئیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا اس کارروائی سے کیا مفاد وابستہ ہے، جس پر عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ پی بی اے اس مقدمہ میں شکایت کنندہ ہے، میں نے ایک درخواست پی بی اے کی جانب سے دائر کی ہے، مجھ سے آج جرنلسٹ یونین نے بھی رابطہ کیا ہے۔ سماعت کے دوران بول نیوز کے متاثرین بھی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے درخواست کی کہ ہم بول کے متاثرین ہیں ہمیں بھی سنا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت میں کوئی ہاتھ کھڑا کرے تو اس کو ضرور سنتا ہوں، یہ بہت اہمیت کا حامل ایشو ہے، معاملہ ملکی وقار کاہے، پاکستان کا وقار اسٹیک پر ہے، ہمیں قانون کے مطابق معاملات کو ڈیل کرنا ہوگا۔ اس مقدمے میں تحقیقات کمزور ہیں، ہم ایف آئی اے کو معاملہ کا جائزہ لینے کا کہیں گے، ڈی جی ایف آئی اے پر بہت اعتماد ہے، دیکھنا چاہتے ہیں کہ تحقیقات کی کیا صورتحال ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی ہے، کب سے ایگزیکٹ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ ہے؟، ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ کمپنی جولائی 2006ء سے پہلے کی رجسٹرڈ ہے اور اس کا ہیڈ آفس کراچی خیابان اقبال میں ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ایگزیکٹ کا بزنس کیا ہے؟، جس پر بشیر میمن نے بتایا کہ سافٹ وئیر کی ایکسپورٹ کا بزنس ظاہر کیا گیا ہے، ایگزیکٹ کے 10 بزنس یونٹ ہیں، ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں،5 ہزار ڈالرز میں ایگزیکٹ کی ڈگری مل جاتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے، جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ یونیورسٹیوں کا صرف ویب پیج تھا، کسی یونیوسٹی کا ایگزیکٹ سے الحاق نہیں تھا، صرف تجربے پر ایگزیکٹ والی ڈگری مل جاتی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کیمپس نہیں تو کلاس رومز بھی نہیں ہوں گے، ہمارے ہاں بھی ورچوئل یونیورسٹی ہے، کیا ورچوئل یونیورسٹی کوئی پروگرام کنڈکٹ بھی کرتی تھی، میرا قانون کا تجربہ ہے مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے۔ جس پر بشیر میمن نے کہا کہ تجربہ کی بنیاد پر آپ کو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انگلش میری اتنی اچھی نہیں ہے، یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں، یہ کام 2006ء سے ہو رہا ہے، 2006ء سے 2015ء تک یہ کاروبار ہوتا رہا، اگر یہ درست ہے تو لوگوں سے فراڈ ہوا، اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کیا کر سکتا ہے۔
دوران سماعت بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے مقدمے میں ملزم بری ہو چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے نے ثبوت پیش کیے، بشیر میمن نے جواب میں بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیرالتواء ہے، عدالت کے استفسار رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ اپیل 22 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کردی، جسٹس اطہر من اللہ کیس سنیں گے۔ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن کو بھی شامل کریں، اسلام آباد ہائی کورٹ تین ہفتوں میں فیصلہ کرے۔ عوام میں افواہیں تھیں جج نے ضمانت کے لئے پیسے لیے، اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے، رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ جج کا نام پرویزالقادر میمن ہے، جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ریمارکس دیئے کہ یہ تو آپ کی برادری کا نکل آیا، بشیرمیمن نے جواب میں کہا کہ یہ میرا عزیز ہے لیکن میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔
ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مرکزی کیس کراچی میں ہے، چیف جسٹس نے رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ سے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات زیرالتوا کیوں ہیں، انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے دو رکنی بنچ تشکیل دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹ مقدمات کا 15 دن میں فیصلہ کریں۔ سپریم کورٹ نے شعیب شیخ سمیت سات ملزمان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ملزمان تعاون نہیں کرتے تو استغاثہ ضمانت منسوخی کی درخواست دے، ٹرائل کورٹ 2 ہفتوں میں ضمانت منسوخی کا فیصلہ کرے، ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹ سے ملزمان کا عدم تعاون برداشت نہیں کریں گے، یہ میرے ملک کے لیے شرمندگی کا معاملہ ہے، اپنی قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔
دوران سماعت شعیب شیخ نے عدالت سے درخواست کی کہ غلطی کی ہے تو معاف کردیں، عدالت میرا موقف بھی سنے، اپنا مقدمہ خود لڑنا چاہتا ہوں، عدالت نے جو حکم دیا وہ درست ہے، ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹ مجھے سن کر فیصلہ کریں، یہ ملک کی عزت کے ساتھ مستقبل کا بھی سوال ہے، عدالت دیکھے آجکل یہ کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی پر بولتے دیکھا اچھے مقرر ہوں گے مگر یہاں نہیں، غیرمتعلقہ بات کو نہیں سنوں گا، آپ کے خلاف خبریں چلتی ہیں تو ہتک عزت کا دعویٰ کریں، غلط خبر پر پیمرا معاملے کو دیکھے گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹ کمپنی پر جعلی ڈگری دینے کا الزام ہے، لوگوں کو فون کال پر ایگزیکٹ کی ڈگری دی جاتی تھی، جس پر شعیب شیخ نے کہا کہ ایف آئی اے نے جعلی ڈگری کے بارے میں غلط بیانی کی۔ جس پر چیف جسٹس نے شعیب شیخ کو خاموش رہنے کا حکم دے دیا۔ سندھ ہائی کورٹ خصوصی بینچ تشکیل دے کر پیر سے مقدمہ کی سماعت کرے اور ایک ماہ میں کرے، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کراچی ایگزیٹ کا فیصلہ 2 ماہ میں کرے، پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ایف آئی اے اپیل دائر کرے۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کی فائل منگوا لی۔ ملزمان نے دوران سماعت ہی تحقیقات میں تعاون کی تحریری یقین دہانی کروا دی، جس پر سپریم کورٹ نے ایگزیکٹ ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے روک دیا۔