جعلی شناختی کارڈ کے حامل دو ماہ میں کارڈ واپس کر دیں: وزیر داخلہ
چودھری نثار نے بتایا کہ قومی شناختی کارڈز کی تصدیق کے پہلے مرحلے میں ڈھائی کروڑ ایسے خاندان جن کے کوائف میں شکوک کا تذکرہ ہے ان کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
بلوچستان میں افغان سرحد کے قریب امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے افغان طالبان کے سرابرہ ملا اختر منصور کے پاس سے پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ملنے کے بعد سے ایک بار پھر پاکستان میں جعلی شناختی دستاویزات کا شوروغوغا ہے اور حکومت نے تمام قومی شناختی کارڈز کی ازسر نو تصدیق کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان پہلے بھی جعلی شناختی دستاویزات کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور جمعہ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں لاتعداد لوگوں کو جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ جاری کیے جاتے رہے۔
ملا منصور کے پاکستانی شناختی کارڈ کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس جعلی شناختی کارڈ کی تجدید ہونے والی تھی جو کہ نہیں کروائی گئی تھی اور ان کے بقول اگر وہ تجدید کے لیے آتا تو پکڑا جاتا۔
"یہ شناختی کارڈ ان کو 2001ء میں دیا گیا ان کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2002ء میں دیا گیا، اس بنیاد پر پاسپورٹ پہلا 2005ء میں دیا گیا پھر اس کی تجدید 2011ء یا 2012ء میں ہوئی مگر اب اس کی تجدید ہونا تھی اکتوبر میں۔”
چودھری نثار نے بتایا کہ قومی شناختی کارڈز کی تصدیق کے پہلے مرحلے میں ڈھائی کروڑ ایسے خاندان جن کے کوائف میں شکوک کا تذکرہ ہے ان کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
انھوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ رکھنے والا کوئی شخص اگر دو ماہ میں رضاکارانہ طور پر اسے واپس کر دیتا ہے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی تاہم اس کے بعد ان کے بقول نہ صرف اس شخص بلکہ جعلی دستاویزات بنانے میں معاونت کرنے والے اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی اور انھیں سات سال تک قید کی سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے۔
انھوں نے لوگوں سے بھی کہا کہ وہ اس سلسلے میں حکومت کی مدد کریں۔
"اگر کسی شہری کے دائیں بائیں کوئی ایسے لوگ ہیں جو غیر ملکی ہیں اور ان کے پاس شناختی کارڈ تو وہ بتائیں۔۔۔اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو اطلاع دینے والے کو انعام بھی دیا جائے گا۔”
وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ فی الوقت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے شناختی کارڈز کی جانچ نہیں کی جا رہی لیکن ان کے بقول اگر ان میں سے کوئی ان مشکوک کوائف والے ڈھائی کروڑ خاندانوں میں شامل ہوا تو اس ملک میں موجود کوائف کے اندراج کے پاکستانی اداروں کو متحرک کیا جائے گا۔