سینئر صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف توہین عدالت کیس پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے توہین عدالت ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت نوائے وقت گروپ اور مطیع اللہ جان کی طرف سے تحریری جواب عدالت میں داخل کیا گیا۔ عدالت کے کہنے پر اینکر مطیع اللہ جان نے آئین کا آرٹیکل انیس کمرہ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ چار طرح کی حدود ہیں، اس میں رہ کر آپ جو مرضی کریں، ایک حد اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور دوسری حد آئین مقرر کرتا ہے، تیسری حد آئین کے تحت ملکی قوانین کی ہیں جبکہ آخری حد بندہ خود اپنے لیے مقرر کرتا ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی کا کہنا تھا کہ آج آپ کی صحافتی یونینز کے لیڈر ساتھ نہیں آئے؟، صحافتی یونین کی مشاورت سے ایک کمیشن بناتے ہیں جو تمام میڈیا اینکرز کے اثاثوں کی تحقیقات کرے، معلوم ہونا چاہئے کہ کس نے کتنے بینکوں سے قرض لیے، پلاٹ حاصل کیے اور بلیک میلنگ کی، جسٹس صدیقی کا کہنا تھا کہ جن کے پاس کل تک ہنڈا 70 میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں تھے ان کے پاس آج لینڈ کروزرز کیسے آئیں؟، یہ بھی معلوم ہے کہ کس کی بیگم نے منہ دکھائی میں کون سا بنگلہ لیا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مطیع اللہ جان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے نہیں اور دوسروں کے گریبان پھاڑ رہے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ بچپن میں صحافی کا قول پڑا تھا کہ جب صحافی کا قلم بکتا ہے تو قوم کی حرمت بکتی ہے، مطیع اللہ جان ن کہا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ کبھی صحافتی اقدار اور اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کی، جسٹس صدیقی نے کہا کہ میں آپ سے زیادہ ذمہ داری کی توقع رکھتا ہوں۔