سینیٹ کمیٹی اجلاس، توہین رسالت قانون میں ترمیم کی سفارش، اراکین میں شدید تلخ کلامی
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں انسداد توہین رسالت قانون سے متعلق سفارشات پر ارکان کے درمیان شدید تلخی ہوگئی۔ اسلام آباد میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا چیئرپرسن نسرین جلیل کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تین معاملات پر غور کیا گیا، جن میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ کرنے، انسداد توہین رسالت قانون اور سانحہ یوحنا آباد میں مسیحی برادری کے افراد کے مقدمات پر نظر ثانی سے متعلق سفارشات پر غور کیا گیا۔ سینیٹ کمیٹی نے توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے سفارشات تیار کیں، جو اجلاس میں پیش کی گئیں۔ سفارشات میں کہا گیا کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کو وہی سزا دی جائے، جو توہین رسالت کے مجرم کے لئے ہے، الزام لگانے والے پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے ساتھ دو گواہ ساتھ لائے، صرف دو گواہ ساتھ لانے کی صورت میں ہی ایف آئی آر درج کی جائے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں کی جا رہی، پاکستان میں توہین رسالت کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے، توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کا وقت آگیا ہے، توہین رسالت کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی جائیداد پر قبضے کئے گئے ہیں، کمیٹی اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مانتی ہے۔ بلوچستان سے جے یو آئی (ف) کے سنیٹر مفتی عبدالستار نے سفارشات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ توہین رسالت کے قانون پر بات نہ کی جائے، کیا ملک میں صرف توہین رسالت کا غلط استعمال ہو رہا ہے؟، کیا ملک میں قتل سے متعلق قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا۔؟ درحقیقت پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ سینیٹر مفتی عبدالستار نے کہا کہ میں کسی ترمیم کی حمایت نہیں کروں گا، یہ سفارشات پیش کی گئیں تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا، اس پر سینیٹر محسن لغاری نے کہاکہ اس سے تو لگتا ہے ہم سب کی زندگی خطرے میں ہیں۔ مفتی عبدالستار نے جواب میں کہا کہ میں اسرائیل نہیں ہوں، میرے پاس اختیار ہوتا تو اب تک آپ زندہ نہ ہوتے، اس رپورٹ کو ایوان میں پیش نہ کیا جائے، رپورٹ پیش کی تو میں کمیٹی ممبران کے خلاف پریس کانفرنس کروں گا، آپ لوگ اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر قانون میں ترمیم چاہتے ہیں، یہ اسلام اور رسالت کے خلاف سازش ہے۔ یہ معاملہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مفتی عبدالستار کی رائے کو بھی رپورٹ کا حصہ بنا دیا۔
اجلاس میں دوسرا معاملہ سانحہ یوحنا آباد لاہور کے بعد گرفتار مسیحی برادری کے افراد کے مقدمات پر نظر ثانی کا اٹھایا گیا۔ کمیٹی نے یوحنا آباد سانحے کے بعد گرفتار افراد کے کیسز پر نظرثانی کی سفارش کردی جس میں کہا گیا کہ گرفتار افراد پر دہشتگردی کے دفعات ختم کر کے سول کورٹس میں کیسز چلائے جائیں۔ کمیٹی نے کہا کہ جو لوگ بیگناہ ہیں ان پر دہشتگردی کے دفعات کے تحت کیسز درج کرنا ناانصافی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ تین سال قبل یوحنا آباد میں دو چرچ پر حملے ہوئے جن میں کرسچن برادری کے افراد مارے گئے۔ واقعے کے بعد مسیحی برادری نے مظاہرہ کیا جو ہر ایک کا بنیادی حق ہے، لیکن مظاہرہ کرنے والے افراد پر دہشتگردی کے دفعات کے تحت کیسز درج کئے گئے، تین سال سے وہ لوگ جیلوں میں ہیں۔ ان مظاہروں میں مسیحی برادری کے افراد نے مشتعل ہو کر دو افراد کو مشتبہ جان کر زندہ جلا دیا تھا جو بعدازاں بے گناہ عام شہری ثابت ہوئے۔ اجلاس میں تیسرا معاملہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا زیر بحث آیا۔ کمیٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ کرنے کی سفارش کردی۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فوجی عدالتوں میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں دو بار توسیع کی گئی ہے، اس بار مدت ختم ہو تو مزید توسیع نہ دی جائے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیٹی یہ سفارش کرے کہ فوجی عدالتوں کو مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ توسیع نہ ملے، رحم کی اپیل کو اسٹریم لائن کرنے کے لئے فوجی عدالتوں میں توسیع نہ دینا لازم ہے۔