ان لوگوں کی قبروں پر بھی یہ تحریر کیا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ۔ ۔ ۔‘‘ اسلامی نظریاتی کونسل سے ایسی خبرآگئی کہ جان کر پاکستانیوں کی حیرت کی انتہاء نہ رہے گی
پاکستان میں اعضاءکی پیوندکاری کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی دو رپورٹوں کو کثرت رائے سے 1983-84ءاور 2000-2001ءمیں جائز قرار دیا ہے اور یہ بھی رائے دی ہے کہ جن لوگوں کے اعضاءدوسروں کو لگائے جائیں ان کی قبروں پر تحریر کیا جائے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعضاءانسانیت کی خدمت کے کام آئے اور وزارت قانون کو لاوارث میتوں کی عزت و احترام سے تدفین کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے۔روزنامہ خبریں کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سالانہ رپورٹ 1983-84ءمیں انسانی اعضاءکی پیوندکاری کے حوالے سے اپنی سفارشات میں کثرت رائے سے کہا تھا کہ مرنے کے بعد کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے لئے نیک ارادے اور نیک خواہش کی بناءپر کسی عضو کو کاٹ کر جدا کرنا مثلہ نہیں کیونکہ وہ احادیث جو مثلہ (شکل بگاڑنے) اور میت کی ہڈی توڑنے (کسر عظم میت) کی ممانعت کے بارے میں آئی ہیں ان میں ممانعت کی علت، بے حرمتی، تحقیر اور ہتک احترام آدمیت ہے اور یہاں مرنے کے بعد عضو نکالنے اور پیوندکاری کے سلسلے میں کئے جانے والے عمل جراحی سے میت کی بے حرمتی اور ہتک مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس سے ایک دوسرے انسان کو حدود شروع میں رہتے ہوئے فائدہ پہنچانا مقصور ہے اس کے سبب جبکہ معطی کو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا اس لئے یہاں علت جواز مصلحت انسانی مفاد عامہ، دفعضر را اور ازالہ مشقت ہے۔کونسل نے بکثرت رائے فیصلہ کیا کہ ان شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانی اعضاءکی پیوندکاری جائز ہے البتہ مولانا مفتی سید سیاح الدین کاکاخیل نے اس سے اختلاف کیا تھا، یہ جواب بذریعہ مراسلہ نمبر 80/(23)3 آر، سی آئی آئی 22 فروری 1984ءکو کیبنٹ ڈویژن، وزارت قانون اور وزارت مذہبی امور کو ارسال کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سالانہ رپورٹ 2000-2001ءمیں طبی ماہرین کی وضاحتوں کے بعد کونسل نے اس مسئلہ پر غور و خوض کرتے ہوئے کہا کہ آیا ایک انسانی عضو کی دوسرے انسان کے جسم میں پیوندکاری شرعی نقطہ نظر سے جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے کثرت رائے سے طے پایا کہ کسی عطیہ دینے والے کی زندگی کو خطرہ سے دوچار کئے بغیر کسی دوسرے انسان کی شفایابی کیلئے انسانی عضو کی پیوندکاری، جبکہ طریق علاج موثر ہو، شرعاً ناجائز نہیں۔کسی انسان کی شفایابی کیلئے اپنے کسی عضو کے عطیہ کیلئے وصیت کرنا شریعت کی رو سے ناجائز نہیں، اس پر تمام علماءکا اتفاق تھا کہ پیوندکاری کی غرض سے انسانی اعضاءکی خرید و فروخت ناجائز ہے، میت کی وصیت کی عدم موجودگی میں اس کے ورثاءکو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کے جسم کا کوئی عضو بطور عطیہ کسی مریض کو دے دیں، رائے میں قرار پایا کہ طبی تحقیق کیلئے انسانی لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لاوارث لاشوں کے دفن کو یقینی بنایا جائے بالخصوص وہ لاوارث لاشیں جن سے پیوندکاری کی غرض سے اعضاءحاصل کرلئے گئے ہوں انہیں پورے اہتمام سے دفن کیا جائے، ہسپتالوں اور میڈیکل کالجوں سے ملحق قبرستانوں میں ایسی لاشوں کیلئے جگہ مختص ہونی چاہیے اور وہاں یہ لکھا جائے ”یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعضاءانسانیت کی خدمت کے کام آئے“ اور وزارت قانون کو لاوارث میتوں کی عزت و احترام سے تدفین کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے۔کونسل کی طرف سے اس موضوع پر تیار کردہ مسودہ قانون کو حتمی شکل دیتے وقت مجمع الفقہ الاسلامی (اوآئی سی) جدہ کی قرار داد سمیت دیگر قرار دادوں کو بھی سامنے رکھا گیا۔ اس موقع پر یہ کونسل کے ارکان قاضی محمد ہاروں اور غلام محمد سیالوی کی اختلافی رائے یہ تھی کہ انسانی اعضاءکی پیوندکاری سرے سے جائز ہی نہیں اس لئے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں اور وہ اس میں کسی قسم کا کوئی تصرف نہیں کرسکتا، مفتی محمد رفیع عثمانی اور پروفیسر منیب الرحمن کی رائے میں انسانی اعضاءکی پیوندکاری طبی مقصد کیلئے اور اضطراری حالت میں جائز ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے دو مثبت پہلو ہیں، ایک یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے یہ سفارشات قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ کو بھجوائی تھیں لیکن بدقسمتی سے پارلیمان میں بیٹھے بعض ایسے اراکین پارلیمنٹ اپنی مرضی اور فوائد کی چیزوں پر قانون سازی تو راتوں رات کرلیتے ہیں لیکن انسانی بھلائی کیلئے پیش کی جانے والی سفارشات کو رد کردیا جات اہے، دوسر امثبت پہلو یہ ہے کہ کونسل اسلامی اصولوں کی بنیاد پر سفارشات مرتب کرتی ہیں اور معاشرے کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طبقات شرعی نکتہ نظر سے آگاہ ہوتے ہیں اور پاکستان میں رائج معروف مسالک کے نمائندے کونسل میں موجود ہوتے ہیں اکثر اوقات رائے متفقہ ہوتی ہے اور بہت کم اختلافی رائے بھی سامنے آتی ہے تاہم انسانی اعضاءکی پیوندکاری کے حوالے سے دونوں سفارشات میں علماءکی رائے متفقہ طور پر سامنے آئی تھی اور یہ رائے کونسل کے کسی حکم یا حالات کے زیر اثر نہیں ہے کیونکہ یہ رائے 1983-84ءمیں بھی متفقہ سامنے آئی تھی اور علماءکا اس پر کوئی احتجاج بھی سامنے نہیں آیا جس سے یہ ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر سامنے آئی۔ اخباری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیوندکاری سے متعلقہ اسلامی ظریاتی کونسل کی ان سفارشات کو نجی بل کے طور پر یا حوالے کی صورت میں قانون سازی کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکتاہے۔