نیب پراسیکیوٹر اور نواز شریف کے وکیل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ، سماعت میں وقفہ کردیا گیا
اسلام آباد: پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسزمیں جرح کے دوران کہا کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دو خطوط کے متن اور دستخط کے علاوہ شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی بھی تصدیق کی ہے۔
پاکستان ویوز کے مطابق اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈریفرنس پرجے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر خواجہ حارث کی جرح جاری ہے۔ سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ حمد بن جاسم کو 13 مئی 2017 کو خط لکھا، حمد بن جاسم کو دوخطوط کے مندرجات کی تصدیق اور بیان ریکارڈ کرانے کیلئے طلب کیا، حمد بن جاسم کوکہا کہ کوئی معاہدہ دیں جوآپ کے خطوط کے متن کی تصدیق کرے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دو خطوط کے متن اور دستخط کی تصدیق کی لیکن حمد بن جاسم نے کہا کہ میں نے دونوں خطوط کی تصدیق کردی ہے اب مجھے آنے کی ضرورت نہیں، 24 مئی 2017 کو حمد بن جاسم نے 13 مئی 2017 کے خط کا جواب دیا، 24 مئی 2017 کو حمد بن جاسم کو ایک اور خط لکھا، 24 مئی والے خط میں حمد بن جاسم کو بیان ریکارڈ کرانے اور پہلے خطوط کے متن کی تصدیق کیلئے دوبارہ طلب کیا۔
وکیل خواجہ حارث نے پوچھا کہ آپ نے حمد بن جاسم کے دونوں خطوط پڑھنے کے بعد متعلقہ ریکارڈ لانے کا کہا تھا، جس پر واجد ضیا نے کہا کہ نہیں، میں نے صرف خطوط کی بنیاد پر نہیں بلکہ تمام اضافی دستاویزات لانے کا کہا تھا، متعلقہ اضافی دستاویزات صرف خطوط کی بنیاد پرنہیں مانگے تھے۔ خواجہ حارث نے سوال کیا مثلاً میں کیا کیا دستاویزات شامل ہیں جس پرواجد ضیا نے کہا کہ کوئی بھی بینکنگ ریکارڈ، خط کا کوئی بھی معاہدہ جو ٹرانزیکشن کو سپورٹ کرے ۔
خواجہ حارث نے جے آئی ٹی سربراہ سے پوچھا کہ کوئی شک و شبہ تونہیں کہ یہ خط حمد بن جاسم نے ہی لکھا، اس خط کی رو سے حمد بن جاسم نے اپنے پہلے دونوں خطوط کی تصدیق بھی کی، 24 مئی کو ہی آپ نے حمد بن جا سم کو ایک اور خط لکھا جس میں پہلے لکھے گئے خطوط کی تصدیق کی۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ یہ کمپاوٴنڈ سوال ہے جس پرواجد ضیا نے کہا کہ جی میں نے خط لکھا تھا، اس خط میں گزشتہ خطوط کی تصدیق کی اورمتعلقہ دستاویزات لانے کا بھی کہا تھا، قطری شہزادے نے شریف خاندان کی سرمایہ کاری کی تصدیق کی، ہم نے قطری شہزادے کو تمام متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کا کہا، قطری شہزادے کی پیشکش پر کیا کرنا چاہیے، جے آئی ٹی میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا، سوالنامہ بھجوانے کے معاملے پر پھر سپریم کورٹ سے رائے لی جس پر رجسٹرارآفس سے فون آیا تفتیش کا معاملہ ہے جے آئی ٹی خود فیصلہ کرے۔