بتایا جائے لاپتہ افراد کس جرم میں زیر حراست ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اعجاز افضل نے لاپتہ افراد کیس میں استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ یہ لوگ کس قانون اور الزام کے تحت زیر حراست ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ لاپتہ افراد کمیشن کے رجسٹرار پیش ہوئے اور بتایا کہ ہمارا مینڈیٹ صرف افراد کی تلاش کی حد تک ہے، کمیشن نے اب تک 3219 افراد کا پتہ لگالیا ہے اور ان کے کیسز کو نمٹایا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ کا کام شاید ختم ہو گیا لیکن عدالت کا کام ختم نہیں ہوا، پتہ چلنا چاہیئے ان پر کوئی مقدمہ ہے یا نہیں، جاننا چاہتے ہیں یہ لوگ کس قانون، الزام کے تحت زیرحراست ہیں، عدالت نے مقدمات کے بارے میں جان کر خود کو مطمئن بھی کرنا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ان میں سے تو بہت سے افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں، جسٹس اعجازافضل نے پوچھا کہ کمیشن کیسے فیصلہ کرتا ہے کہ مقدمات جبری گمشدگی کے ہیں یا نہیں؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مختلف اداروں اور ایجنسیوں سے رپورٹ طلب کی جاتی ہے۔ درخواست گزار آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ عدالت حکومت سے کئی سالوں سے سادہ سا سوال پوچھ رہی ہے، ہرسماعت پر یہی پوچھا جاتا ہے کہ اٹھائے گئے افراد پر الزام کیا ہے۔