ملک میں ذہنوں پر لوہے کے خول چڑھائے جا رہے ہیں
رمضان ٹرانسمیشن میں ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر دو ٹی وی چینلز کے میزبانوں پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی ہے۔
پیمرا کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ٹی وی ون کے پروگرام ’ عشقِ رمضان‘ کے میزبان شبیر ابو طالب اور آج ٹی وی کے پروگرام ’رمضان ہمارا ایمان‘ کے میزبان حمزہ علی عباسی پر فوری پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پیمرا کے مطابق انھیں موصول ہونے والی شکایات پر یہ اقدام اٹھایا گیا جس میں کہا گیا کہ رمضان کے تقدس کو پامال کیے جانے اور متنازع فرقہ وارانہ اور متشددانہ گفتگو نشر ہونے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
پیمرا کے مطابق دونوں ٹی وی چینل اپنے پروگرام کسی دوسرے میزبان کے ذریعے جاری رکھ سکتے ہیں لیکن میزبان شبیر ابو طالب، حمزہ علی عباسی اور ایک شریکِ گفتگو کوکب نورانی اوکاڑوی نے اگر کسی اور ٹی وی چینل پر اس موضوع پر یا کوئی اور متنازع گفتگو کی تو اس چینل کے پروگرام کو بند کر دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ حمزہ علی عباسی نے اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ وہ رمضان کے آخر میں احمدی برادری اور توہین مذہب کے قانون پر بات کریں گے اور اس کے بعد انھوں نے احمدی برادری پر ہونے والے حملوں، نفرت پر مبنی رویے پر بات کی تھی اور کہا تھا کہ اگر احمدیوں کے حق کے بارے میں بات کی جائے تو لوگ انھیں بھی احمدی قرار دے دیتے ہیں۔
اقلیتوں کے حقوق پر بات کرنے پر پیمرا کے اس اقدام پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور میں پیمرا کی شکایات سے متعلق کونسل کے سربراہ اور سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ان کے علم میں نہیں کہ ایسی کوئی شکایات آئی ہو، اگر پیمرا نے کوئی فیصلہ کیا ہے تو وہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہیں تو یہ غلط ہے اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان اس کا نوٹس لے سکتا ہے اور وہ صبح ان سے درخواست کریں گے کہ اس کا نوٹس لیا جائے۔
اقلیتوں کے بارے میں بات کرنے اور اس پر کسی شکایت کی صورت میں میزبان پر پابندی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ’بظاہر لگتا ہے کہ موجودہ پاکستان جناح کا پاکستان نہیں بلکہ ضیاالحق کا پاکستان ہے، اور یہاں مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے اور یہاں تمام فیصلے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور موجودہ حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔‘
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پی ایف یو جے کے سابق سیکریٹری جنرل سی آر شمسی نے
بات کرتے ہوئے پیمرا کے اس اقدام کو آزادی رائے کے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کا آئین سب شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے اور شہری مذہب سے بالاتر ہو کر ریاست کے شہری ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا حکومت وقت کی بنیادی ذمہ داری ہے نہ کہ ان کے بارے میں بات کرنے پر پابندی لگا دینا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر کھل کی بات ہونی چاہیے اور اس کے بارے میں اٹھنے والی آواز کو بند نہیں کرنا چاہیے اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ آئین پاکستان اور اسلام کے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں تصور کو مجروع کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں ذہنوں پر لوہے کے خول چڑھائے جا رہے ہیں ان کو اتارنا ہو گا اور بڑے کھلے دل و دماغ کے ساتھ سامنے آنے والے ایشوز اور سوالات پر بات کرنا ہو گی اور ان کے جواب دینا ہوں گی۔