پاکستان کے سابق سفیر کے باعث لابی میں دشواریاں ہیں
وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے ایک سابق سفارتکار کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کو لابی کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں
اُنھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ملکی خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کا بین الاقوامی امور پر موقف دنیا بھر میں تسلیم کیا جارہا ہے۔
اُنھوں نے سابق سفارتکار کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ پاکستان مخالف لابی کے ساتھ مل کر ملک دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرر ہے ہیں۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پاکستان مخالف لابی کے ساتھ مل کر کام کرر ہے ہیں۔
حسین حقانی میاں نواز شریف کے گذشتہ دور حکومت میں سیکریٹری اطلاعات بھی رہے ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے دو اسلامی ملکوں کے دورے سے پاکستان اور برادر اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے ہمسایہ مسلم ممالک جن میں افعانستان اور ایران شامل ہیں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور ان تعلقات میں مزید مضبوطی آرہی ہے۔
انھوں نے حزب مخالف کی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر ’ہم خود خارجہ پالیسیوں پر تنقید کریں گے تو پھر عالمی برادری سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔‘
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملکی خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت کی غیر سنجیدہ خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ نے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کی ڈیل منسوخ کی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ بھارت افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے لیکن اس کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ غلط خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس دو تہائی کی اکثریت ہونے کے باوجود ملک میں وزیر خارجہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں سے متعلق حکومت کی پالیسی واضح نہیں ہے۔