حکومت کیخلاف سازشیں کرنے والوں کو آرٹیکل سکس کا سامنا کرنا پڑیگا، کیپٹن صفدر
سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر نے پاناما پیپز سے متعلق تحقیقات کو منتخب حکومت کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سازش کے مرتکب اور شریکِ جرم لوگوں کو مناسب وقت پر آرٹیکل 6 (سنگین غداری) کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے آئین کے آرٹیکل 58 (2) بی کو متبادل کے طور پر استعمال کیا، جبکہ اسے 2010ء میں 18 ویں ترمیم میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، ماضی میں اس آرٹیکل کو استعمال میں لا کر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاتا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ جلد بازی میں تیار کی گئی، تاہم کوئی نہیں جانتا کہ اسے کہاں حتمی شکل دی گئی جس کا مقصد محض سابق وزیراعظم نوازشریف کو گھر بھیج کر مسلم لیگ (ن) کے ووٹروں کی توہین کرنا تھا لیکن عدالت میں کیس کے حق میں شواہد دینا ناممکن ہے۔ دوسری جانب احتساب عدالت کو نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل نے بتایا کہ خراب موسم کی وجہ سے ان کی فلائیٹ لاہور سے منسوخ ہو گئی، جس کے بعد عدالت نے دونوں کو بروز پیر ذاتی طور پر عدالت کے روبرو پیش ہونے مہلت دے دی۔ واضح ہے جرح کے دوران واجد ضیا نے اقرار کیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے اس حقیقت کو پوشیدہ رکھا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) حکام کو 21 مئی 2017 کو میجول لیگل اسسٹنس (ایم ایل اے) کے تحت آف شور نیلسن اور نیسکول کمپنیوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا مراسلہ لکھا لیکن بی وی آئی نے مطلوبہ تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کیا۔
مریم نواز کے وکیل کے سوال پر واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ میں ایم ایل اے اور بی وی آئی سے متعلق کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ واجد ضیاء نے تسلیم کیا کہ جے آئی ٹی نے رپورٹ میں 3 دیگر ایم ایل ایز فراہم کیے جو رپورٹ کے والیم ایکس سے منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران کسی شواہد سے تصدیق نہیں ہوتی کہ مریم نواز لندن فلیٹس کی مالک ہیں یا پھر سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی آف شور کمپنیوں کے اثاثوں کی مالک ہیں۔ واجد ضیاء نے گواہی دی کہ جب جے آئی ٹی نے حسن نواز سے سوال پوچھا کہ ان کا یا ان کے کسی خاندان کے فرد کا نیلسن اور نیسکول سے 1994 سے 2006 تک کوئی تعلق رہا تو انہیں قطعی انکار نہیں کیا بلکہ موقف اختیار کیا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے جبکہ دوسری جانب حسین نواز دونوں مذکورہ کمپنیوں کے مالک تھے۔ واجد ضیاء نے بتایا کہ دوران تفتیش مریم نواز کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ انہوں نے نیلسن اور نیسکول کی سالانہ فیس یا فلیٹس کا کرایہ ادا کیا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ملزمان کی جانب سے کوئی دستاویزات فراہم نہیں کیے گئے تو جے آئی ٹی نے ایم ایل ایز کے تحت مراسلے ارسال کیے لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔