تشدد کیس میں سابق جج کو اہلیہ سمیت قید کی سزا
ہائیکورٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو ایک ایک سال قید اور 50 ہزار جرمانے کی سزا سنا دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے مقدمے کا فیصلہ 27 مارچ 2018ء کو محفوظ کیا تھا جسے اب سنا دیا گیا ہے، جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ دونوں مجرمان کمسن ملازمہ پر جسمانی تشدد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس لئے عدالت انہیں ایک ایک سال قید اور 50،50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سناتی ہے۔ فیصلہ سنائے جانے کے فوراً بعد پولیس نے سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو گرفتار کرلیا۔
سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کے خلاف اپنی کم سن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو سامنے آیا تھا۔ دونوں ملزمان کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تاہم بعد میں طیبہ کے والدین نے راجہ خرم اور اس کی اہلیہ کو معاف کر دیا۔ راضی نامے کی خبر نشر ہونے پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا، سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کراکے پیش کیا، بعد ازاں عدالتی حکم پر 12 جنوری 2017ء کو راجہ خرم علی خان کو کام سے روک دیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے مقدمے کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھجوایا، 10 فروری کو ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف علی نے ملزمان کی عبوری ضمانت کی توثیق کی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے 16 مئی 2017ء کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی، مقدمے میں مجموعی طور پر 19 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے، گواہوں میں گیارہ سرکاری جبکہ طیبہ کے والدین سمیت 8 غیرسرکاری افراد شامل تھے۔