قومی اسمبلی میں فاٹا انضمام کا بل کثرت رائے سے منظور
قومی اسمبلی نے فاٹا کی خیبر پختونخوا میں نمائندگی سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔ بل کے مطابق آئندہ 5 سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی، آئندہ برس فاٹا کیلئے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ فاٹا میں صوبائی قوانین کا فوری اطلاق ہوگا اور منتخب حکومت قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے اور ایف سی آر کے مکمل خاتمے کا بھی ذکر ہے۔ ارکان اسمبلی کی جانب سے بل پر بحث کے بعد بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا، جے یو آئی (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا۔
شق وار منظوری کے بعد اسمبلی نے مکمل بل کی بھی منظوری دے دی۔ آئین کے تحت قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے منظوری کے بعد بل کو ایوان صدر میں بھجوایا جائے گا، صدر مملکت کے دستخط کے بعد بل آئین کا حصہ بن جائے گا۔ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بل کی اہمیت کے پیش نظر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی کم و بیش 2 سال بعد ایوان میں آئے۔ بل پیش کرنے کیلئے حکومت کو اپنے ہی ارکان کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، بل کی منظوری کیلئے آئینی طور پر 228 ارکان جبکہ کابینہ میں شامل نصف وزراء کی حاضری لازمی ہوتی ہے، لیکن حکومتی ارکان ہی ایوان سے غائب تھے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ذاتی طور پر حکومتی ارکان کو فون کر کے ایوان میں آنے کی تلقین کرتے رہے۔ قومی اسمبلی میں صورتحال اس وقت دلچسپ ہوئی جب قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے ایوان میں حکومتی ارکان اور وزراء کی تعداد کو کم محسوس کیا۔
جس پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خورشید شاہ کو کہا کہ یہ حکومت یا اپوزیشن کا نہیں سب کا بل ہے، ہمیں ڈیڑھ سو سال کی تاریخ بدلنی ہے، آدھا گھنٹہ اور انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں، ارکان پورے ہوجائیں تو بل پیش کر دیں گے، دو کے سوا باقی تمام وزراء یہاں موجود ہیں۔ فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئندہ 5 سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کیلئے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے۔ بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہو جائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کیلئے 1 ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔ ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا جبکہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کیلئے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔