خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کا بل سینیٹ سے بھی منظور
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق آئینی ترمیم کا بل منظورکر لیا ہے۔ چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے انضمام سے متعلق آئینی بل پیش کیا۔ قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس بل کی مخالفت جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے اس کی حمایت کی۔ بل پر بحث کے دوران پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا نہ ہوتا تو آج بھی ہمارے ملک میں انگریزحکمران ہوتا، کل بھی فاٹا کے لئے سیاہ دن تھا اور آج بھی سیاہ دن ہے، کل بھی قومی اسمبلی سے ایک ووٹ سے بل منظور کرایا گیا، آج حکومت اور اپوزیشن ایک ہیں کیونکہ انہیں ہدایت ملی ہوئی ہے، فاٹا کے عوام انضمام نہیں اپنا تشخص چاہتے ہیں۔ وہ این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بل کے حق میں کہا کہ یہ بل ایک علاقے کو حقوق دینے کے مسئلے سے متعلق ہے، فاٹا کے پی میں انضمام سے خیبر پختونخوا کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔ بحث کے بعد ایوان بالا میں اس کی منظوری عمل میں آئی، آئینی ترمیمی بل کی حمایت میں 71 اورمخالفت میں 5 ووٹ آئے۔ بل کی سب سے بڑی مخالف جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، جب کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے مخالفت میں ووٹ ڈالے گئے۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے گزشتہ روز فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم منظور کی تھی۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ بل ایوان صدر بھجوایا جائے گا ، صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ بل آئین کا حصہ بن جائے گا۔
فاٹا خیبرپختونخوا انضمام بل کے خدوخال
فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے۔ صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔