زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے پہ وزارت داخلہ سے جواب طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے پر وزارت داخلہ اور نیب کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کی درخواست کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران نیب پراسکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ زلفی بخاری کو آف شور کمپنی کی وجہ سے چار نوٹس بھیجے گئے لیکن وہ پاکستان میں موجودگی کے باوجود پیش نہیں ہوئے، 9 مئی کو نیب نے وزارت داخلہ کو زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست دی۔ زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ میں ڈالے جانے سے متعلق نیب کو بھی آگاہ نہیں کیا گیا، وزارت داخلہ کو انکوائری کا علم ہونے کے باوجود انہوں نے زلفی بخاری کو 6 دن کے لئے باہر جانے کی اجازت دی۔ عدالت نے وزارت داخلہ کے سیکشن افسر سے استفسار کیا کہ نیب نے ای سی ایل میں نام ڈالنے کا کہا تو بلیک لسٹ میں کیوں ڈالا گیا، جب کسی شخص کو بلیک لسٹ کیا جاتا ہے تو اس کا پاسپورٹ واپس لے لیا جاتا ہے، کیا آپ نے زلفی بخاری سے پاسپورٹ لیا؟ جس پر سیکشن افسر نے جواب دیا کہ ہم نے پاسپورٹ نہیں لیا۔ جسٹس عامر فاروق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہر شہری کے لئے قانون ایک جیسا ہونا چاہیے، عدالتی حکم کے باوجود ہفتہ ہفتہ ای سی ایل سے نام نہیں نکالا جاتا، اس کیس کی طرح عام لوگوں کو بھی ایک بار سفر کی اجازت دے دیا کریں، جیسے اس کیس میں پھرتی دکھائی گئی عوام کے لئے بھی ہونی چاہیے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ذلفی بخاری کو نیب انکوائری میں پیش ہونے کی ہدایت کی، عدالت عالیہ نے وزارت داخلہ اور نیب کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نےعمران خان کی نور خان ائیر بیس سے عمرے کے لئے روانگی پر وزارت دفاع کے نمائندے کو بھی بدھ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے زلفی بخاری نے کہا کہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں نیب کےپاس جانا پڑا تو بالکل جاؤں گا، میرا ایک ہی پاسپورٹ ہے، میرانام ای سی ایل میں نہیں بلیک لسٹ میں شامل تھا، مجھے بلیک لسٹ میں ڈالنےکی وجہ نہیں بتائی گئی، ای سی ایل سے نام نکالنے کے لئے عمران خان نے کسی کو فون نہیں کیا۔ واضح رہے کہ زلفی بخاری عمران خان کے انتہائی قریبی رفیق ہیں، وزارت داخلہ نے ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا تاہم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں انہیں عمران خان کے ساتھ عمرے کی ادائیگی کے لیے مبینہ طور پر خلاف قانون 6 روز کا استثنیٰ دیا گیا تھا۔