الزام برائے الزام کی روایت سے کچھ حاصل نہیں ہوگا
جمعرات کو اسلام آباد میں جنوبی ایشیا کی تنظیم سارک کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ ’چھ دہائیوں سے الزام برائے الزام کی روایت جاری ہے اور اس الزام برائے الزام سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘
پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے مطابق چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ حل طلب معاملات کا تصفیہ اور تحفظات دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور وقت آ گیا ہے کہ تمام معاملات کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہےاور پرامن اور بامقصد تعلقات کا خواہاں ہے۔
پاکستانی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے پاکستان نے سخت نقصان برداشت کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا ہر واقعہ قابلِ مذمت ہے اور ’ڈھاکہ، کابل، پٹھان کوٹ جیسے کئی واقعات پاکستان میں بھی ہوئے۔۔۔جن میں معصوم پاکستان شہری مارے گئے۔‘
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری حالیہ احتجاجی لہر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے اور معصوم بچوں اور شہریوں پر وحشیانہ تشدد دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔‘
خیال رہے کہ کشمیر میں چند ہفتے قبل شروع ہونے والی احتجاجی لہر میں درجنوں افراد ہلاک اور دو ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
سارک کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں انڈیا کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی شریک ہیں۔
ان کی اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آمد پر بعض مذہبی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا ہے اور ان کے اس دورۂ پاکستان کی مخالفت صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی ہوئی ہے۔
جمعرات کو اجلاس کی استقبالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہا تھا کہ خطے کی ترقی کے لیے باہمی تعاون ضروری ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ جنوبی ایشیائی خطے سے دہشت گردی اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے رکن ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ سارک پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہے اور توقع ہے کہ سارک کے فیصلے رکن ممالک کے فیصلے حوصلہ افزا ثابت ہوں گے۔
نواز شریف نے خطے کی ترقی کے لیے باہمی اشتراک پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ چیلنجز کے باوجود سارک نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔
سارک کے وزرائے داخلہ کے اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان علاقائی سکیورٹی کے موضوع پر گفتگو ہونی ہے لیکن تمام نظریں ایک مرتبہ پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر میں حالیہ کشیدگی کے تناظر میں کسی دو طرفہ ملاقات کے امکان پر لگی ہیں۔