نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ ہوسکتا ہے برقرار نہ رہے، تفصیلی فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ احتساب عدالت کا فیصلہ ‘ہوسکتا ہے زیادہ دیر قائم نہ رہے’۔
تفصیلی فیصلہ جسٹس اطہرمن اللہ نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ‘بادی النظر میں غیر حتمی رائے’ کی بنیاد پر اور ‘ایون فیلڈ فیصلے کو سرسری پڑھنے اور سیکشن 426 کے تحت سزا کی معطلی کا جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے’۔
خیال رہے کہہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 19 ستمبر کو اڈیالہ جیل میں قید نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو گزشتہ ماہ ضمانت پر رہائی کا فیصلہ سنایا تھا جس کے بعد انہیں جیل سے رہا کردیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کرپشن کے الزامات ثابت کرنے میں ناکامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘درخواست گزار پر الزام تھا کہ انہوں نے کرپشن، بددیانتی اور غیرقانونی ذرائع سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بنائے’۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے فیصلے میں تحریر کیا کہ احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ‘استغاثہ نیب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 9 اے فور کے تحت ثبوت نہیں لا پایا اور ملزم کو قانون کی شق کے مطابق بری کردیا جاتا ہے’۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ‘نیب نے اپنے سمجھ کے مطابق اس بریت کو چیلنج نہیں کیا’۔
نواز شریف کے وکیل کے دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘نواز شریف کے وکیل نے ایک اور اہم سوال اٹھایا کہ بریت کے وقت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت کا بھی تعین نہیں کیا گیا اور فیصلے میں بھی اس حوالے سے کوئی نشان دہی نہیں کی گئی’۔
عدالت کے دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جب نیب سے اپارٹمنٹس کی قیمت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ‘قیمت گوگل سے حاصل کی جاسکتی ہے’۔
نیب کے اس جواب پر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ‘تجربہ کار اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل وکلا سے اس طرح کے جواب کی توقع نہیں تھی’۔
جسٹس اطہرمن اللہ کی جانب سے تحریر کردہ اس فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ استغاثہ نے احتساب عدالت کو کہا کہ مریم اپنے والد کے زیر کفالت تھیں لیکن احتساب عدالت کے فیصلے میں پٹیشنر نمبر 2 مریم نواز سے اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ہیں جب کہ کہا گیا کہ 1993 سے 1996 کے دوران ایون فیلڈ اپارٹمنٹس حاصل کیے گئے اور اس وقت انہوں نے پٹیشنر نمبر ایک نواز شریف کے ساتھ تعاون کیا یا سازش کی۔
کیپٹن (ر) صفدر کی سزا پر کہا گیا ہے کہ ان کی سزا عدم تعاون پر کی گئی ہےتاہم فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ‘مریم اور صفدر دونوں کی سزاؤں کا انحصار پٹیشنر نمبر ایک کی سزا پر ہے جو نیب آرڈیننس 1999 کے تحت ہی برقرار رہے گی’۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر کیے گئے ایون فیلڈ پراپرٹیز کرپشن ریفرنس کا فیصلہ 6 جولائی کو سنایا تھا جس کے مطابق نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر 10 برس، اور نیب سے تعاون نہ کرنے پر ایک سال قید کی سزا سنا دی تھی۔
احتساب عدالت نے مریم نواز کو اپنے والد کو ان پراپرٹیز میں مدد کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے 7 برس اور نیب سے تعاون نہ کرنے پر ایک برس کی قید سزا سنا دی تھی۔