سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے داماد کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم
اسلام آباد/لاہور: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے داماد ڈاکٹر مرتضیٰ امجد کا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم واپس لے لیا۔
تاہم عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ ایڈن ہاؤسنگ اسکینڈل میں مرتضیٰ امجد اور ان کے والد کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں تحقیقات جاری رکھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 3 جون کے فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔
اس دوران درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ ایف آئی اے کو حکم دے کہ وہ انہیں پاکستان آنے کی اجازت دے اور نیب کے سامنے پیش ہونے سے قبل انہیں ’تحفظ‘ دیا جائے۔
درخواست گزار نے نظرثانی اپیل میں موقف اپنایا کہ ’مرتضیٰ امجد 26 ستمبر کو اپنی بیوی اور بچوں سے ملنے کے لیے دبئی گئے تھے، جہاں انہیں حراست میں لے لیا گیا، اس کے بعد متعدد کوششوں کے باوجود انہیں اپنی اہلیہ یہاں تک کہ وکیل تک سے ملنے نہیں دیا جارہا‘۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ ڈاکٹر امجد کا نام ای سی ایل میں ڈالنا ایک انتہائی اقدام اور ان کو بنیادی حقوق سے روکنا ہے کیونکہ نیب سے تحقیقات کا آغاز کرسکتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ ڈاکٹر امجد اور ان کے اہل خانہ کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا اور بغیر موقف سنے ای سی ایل میں نام ڈالنا آئین کے آرٹیکل 15 اور 25 کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ اپنے ابتدائی احکامات پر نظرثانی کرے اور نیب کو مزید ہراساں کرنے سے روکے، جس کے بعد عدالت نے اپنے ابتدائی فیصلے کو واپس لے لیا۔
دوسری جانبایڈن ہاؤسنگ اسکینڈل میں ایک پیش رفت دیکھنے میں آئی اور اربوں روپے مالیت کی ایڈن ہاوسنگ کے مفرور مالک اور اسکینڈل کے اہم ملزم ڈاکٹر امجد نے نیب کو پلی بارگین کے لیے درخواست دی ہے۔
اس حوالے سے وزارت داخلہ کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’ کینیڈا میں روپوش ڈاکٹر امجد نے نیب سے رابطہ کیا اور پلی بارگین کا کہا، جس پر نیب نے انہیں پلی بارگین کے دیگر طریقہ کار کے آغاز سے قبل وہ اسکینڈل کی کل رقم کا 34 فیصد فوری طور پر جمع کرائیں‘۔
ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر امجد نے پلی بارگین کی خواہش کا اظہار وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے دبئی میں ان کے بیٹے ڈاکٹر مرتضیٰ کی گرفتاری کے بعد کیا گیا۔
خیال رہے کہ یہ معاملہ 2013 میں سامنے آیا تھا لیکن اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یہ کیس اپنے بینچ کے لیے مختص کیا تھا اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد اپنی بیٹی کے سسرالیوں کو ریلیف فراہم کرنا تھا۔
تاہم افتخار محمد چوہدری اور ان کے بیٹے ارسلان نے اس اسکینڈل میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔
نیب کے مطابق اس اسکینڈل سے 11 ہزار سے زائد لوگ ’متاثر‘ ہوئے تھے اور گزشتہ ماہ ان لوگوں نے وزیر اعظم عمران خان کے گھر زمان پارک کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔
نیب کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ایڈن گروپ کی جانب سے 20 ارب روپے تک کی زمین لی، تاہم ادارے نے دعویٰ کیا کہ وہ جلد ہی اس اسکیم سے متاثرہ لوگوں کا معاوضہ دے گا۔
یہ بھی واضح رہے کہ ایڈن ڈویلپرز اور اس کے مالکان کے اربوں روپے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیا تھا۔