کوئی اسرائیلی طیارہ پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر نہیں اترا، سول ایوی ایشن
اسلام آباد: مبینہ اسرائیلی طیارہ، اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے اُڑا، اردن کے دارالحکومت عمان سے ہوکر مبینہ طور پر پاکستان آیا، مبینہ طور پر اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترا پھر مبینہ طور پر 10 گھنٹے وہاں رک کر جہاں سے آیا واپس چلا گیا۔
اسرائیلی صحافی کے مذکورہ بیان سے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہوگیا جبکہ وفاقی حکومت اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)نے اسرائیلی صحافی کے بیان کو مسترد کردیا۔
اسرائیلی صحافی کے اس بیان پر لوگوں نے اس سے سوشل میڈیا پر سوالات بھی کیے۔ اسرائیلی صحافی نے ان سوالوں کے جواب دیے اور کہا کہ پاکستان میں اُن کی ٹوئیٹس سے ہنگامہ برپا ہوگیا، انٹرنیٹ ویب سائٹ فلائٹ ریڈار ٹوئنٹی فور کے مطابق جہاز کی لوکیشن عمان سے سعودی عرب اور پھر خلیج عمان تک موجود رہی، لیکن رات 11 بجے خلیج عمان سے ٹریکنگ غائب ہوگئی۔
صحافی نے مزید کہا کہ اس کے ایک گھنٹہ چالیس منٹ بعد جہاز اسلام آباد کی فضائی حدود میں 20 ہزار فٹ کی بلندی پر نظر آیا اور پھر ٹریک نظروں سے اوجھل ہوگیا، 10 گھنٹوں بعد اسلام آباد سے جہاز کا ٹریک ایک بار پھر سامنے آیا جو عمان کے راستے اسرائیل پہنچا۔
ایوی شراف نے کہا کہ، اس بات کو بھی 100 فیصد حتمی نہیں کہا جاسکتا کہ جہاز نے اسلام آباد میں ہی لینڈنگ کی کیونکہ ویب سائٹ سے ٹریکنگ آتی جاتی رہی لیکن اگر آپ مسلسل شمال کی طرف جارہے ہیں تو 40 ہزار فٹ کی بلندی سے 20 ہزار فٹ پر آنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔
ایوی شراف نے یہ بھی کہا کہ اس پرواز کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ عُمان سے کوئی تعلق نہیں۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی تردید
ایوی شراف کے مسلسل بیانات کے بعد پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے بھی بیان سامنے آگیا کہ کسی اسرائیلی طیارے کی پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر آمد کی خبر میں قطعی کوئی صداقت نہیں کیونکہ ایسا کوئی طیارہ پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر نہیں اُترا۔
حکومت کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کیے گئے پیغام میں سول ایوی ایشن کے حوالے سے کہا گیا کہ ‘کسی اسرائیلی طیارے کی پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر آمد کی افواہ میں کوئی صداقت نہیں’۔
سول ایوی ایشن کے بیان کے بعد اسرائیلی صحافی نے پھر ٹوئیٹر سنبھالا اور اپنے تازہ ٹوئٹ میں اُس نے کہا کہ فلائٹ ریڈار کی ویب سائٹ جہاز کی بلندی،لینڈنگ کی جگہ بتاسکتی ہے، پاکستان میں متجسس ذہن رکھنے والے خود پتا کرلیں۔
واضح رہے کہ 25 اکتوبر کو ایوی شارف (Avi Scharf) نامی ایک اسرائیلی صحافی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ایک اسرائیلی طیارہ پاکستان آیا، تاہم وہ طیارہ دارالحکومت تل ابیب سے براہ راست اسلام آباد نہیں پہنچا بلکہ طیارے کے پائلٹ نے چالاکی کرتے ہوئے پہلے اسے 5 منٹ کے لیے اردن کے دارالحکومت عمان میں لینڈ کروایا اور پھر وہاں سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھری۔
اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ‘گلوبل ایکسپریس ایکس آر ایس’ نامی مذکورہ طیارہ اسرائیل میں رجسٹرڈ نہیں تھا اور اسے کینیڈا کی طیارہ ساز کمپنی بمبار ڈیئر نے بنایا تھا۔
حکومت سے وضاحت کا مطالبہ
دوسری جانب اسرائیلی صحافی کی ٹوئیٹ کے بعد سوشل میڈیا پر تبصروں اور افواہوں کا ایک سیلاب آگیا اور سابق وزیر داخلہ اور لیگی رہنما احسن اقبال نے حکومت سے وضاحت کا مطالبہ کر ڈالا۔
مولانا فضل الرحمان نے بھی اسرائیلی طیارے کی آمد کو گمبھیر صورتِحال قرار دیا اور حکومت سے وضاحت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے احسن اقبال کو پاکستان کی ‘جعلی فکر’ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نہ مودی سے خفیہ مذاکرات کریں گے اور نہ ہی اسرائیل سے، ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
بعدازاں جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی اسرائیلی طیارے کی آمد کی رپورٹس کو جعلی قرار دے دیا گیا۔
وزارت اطلاعات کے ٹوئٹر اکاؤنٹ ‘فیک نیوز بسٹر’ پر پوسٹ کی گئی ٹوئیٹ میں کہا گیا کہ ‘جعلی خبریں پھیلانا صحافتی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کی جانب سے پھیلائی گئی اس بے بنیاد خبر کا مقصد کشمیریوں کے یوم سیاہ کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے سے روکنے کی کوشش ہے’۔